Mymenu

Pages

Ziarat-e-Qaboor Aur Mazarat Per Hazri

زیارت القبور اور مزرات پر حاضری مع ایصالِ ثواب

شہدائے اُحد پر جلوہ گری:
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 1257
بخاری شریف جلد نمبر2حدیث نمبر805
بخاری شریف جلد نمبر 2حدیث نمبر 1213
بخاری شریف جلد نمبر 2حدیث نمبر1254
بخاری شریف جلد نمبر3حدیث نمبر 1347
ترجمہ:
حضرت عقبہ بن عامر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم شہدائے اُحد پر نماز پڑھنے کیلئے تشریف لے گئے جیسے میت پر نماز پڑھی جاتی ہے
پھر منبر پر جلوہ افروز ہوکر فرمایا، بے شک میں تمھارا سہارا اور تم پر گواہ ہوں اور بے شک خدا کی قسم، میں اپنے حوض کو اب بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا فرما دی گئی ہیں یا زمین کی کنجیاں اور بے شک خدا کی قسم مجھے تمھارے متعلق ڈر نہیں ہے کہ میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم دنیا کی محبت میں نہ پھنس جاﺅ۔

تفصیل:
واضح ہو ا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم شہدائے اُحد پر کمال شفقت فرماتے ہوئے تشریف لے جاتے خاص طور پر مذکورہ روایت آخری سال سے تعلق رکھتی ہے، اہلِ ذکرنے فرمایا ہے کہ اس حدیث کے لفظ صلوٰة کا دعا کے معنی میں ہونے پر اجماع ہے یعنی صالحین اور شہدا کی قبور پر جانا حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے، آگے فرمایا کہ میں اب بھی اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں، یعنی زمین پر بیٹھ کر فرمایا کہ میں اب بھی اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں جو آقا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم زمین پر بیٹھ کر حوضِ کوثر کو دیکھ سکتے ہیں ان سے دنیا کی کوئی چیز کیسے پوشیدہ ہو سکتی ہے؟ اور یہ بات قسم اُٹھا کر نمایاں کردی، یہ بھی فرمایا کہ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کر دی گئی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے عطا کرنے والامنصب مجھے عطا فرمایا ہے اب جس کو جو کچھ ملے گا میرے ہی در سے ملے گا، چاہے کوئی انکار کرکے کھائے یا اقرار کر کے، آخری بات پھر قسم اُٹھا کر ارشاد فرمائی کہ مجھے تمھارے متعلق یہ ڈر نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک کرو گے ہاں یہ خدشہ ہے کہ کہیں دنیا کی محبت میں نہ پھنس جاﺅ، خاص طور پر یہ ارشاد شہدا ءکی قبور پر فرمایا کیونکہ حوضِ کوثر کو دیکھنے والے آقا سے دورِحاضر کے شرک کے ٹھکیدار پوشیدہ نہیں تھے اسی لے جو قبور سے متعلقہ شر ک شرک کے فتوے لگاتے ہیں و ہ جان لیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے واضح فرما دیا ہے کہ میری امت شرک نہیں کرے گی، ہا ں دنیا کی محبت میں پھنس جانے کا خدشہ ظاہر فرمایا، دراصل دنیا کی محبت میں اسیرہونے ہی کہ وجہ سے ہم برگزیدہ لوگوں کی محفل سے دور ہو جاتے ہیں جو دین سے دوری کا سبب بنتی ہے اس طرح ہم ہر نماز، روزہ، قرآن وغیرہ تلاوت کرنے والے اور لمبی داڑھی رکھنے والے کو دین کا ٹھکیدار سمجھتے ہوئے اس سیدھے راستے سے دور ہو جاتے ہیں جس کی پہچان ہی انعام یافتہ بندوں کا گروہ ہے۔

حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ ؓ کی مزارات کی زیارت کرنا۔
ابو داﺅد بحوالہ مشکوٰة جلد نمبر 1، باب دفن , صفحہ 401
حضرت قاسم ؓبن محمد سے روایت ہے کہ میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ والدہ ماجدہ ! مجھے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہ ؓ کے مزارات کھول کر دکھائیے، آپؓ نے میرے سامنے تین مزارات کھولے، جو نہ بہت اونچی تھے اورنہ زمین کے برابر جن پر میدان کی سرخ بجری بچھی ہوئی تھی۔

زیارتُ القبور
یاد رہے کہ بہت شروع کے عرصہ میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے زیارتُ القبور سے منع فرمایا تھا جس کے متعلق آئمہ ِ دین اور محدثین نے بیان کیا ہے کہ بہت اوائل کے زمانہ میں مسلمان جب اپنے کفار آباءو اجداد کے مزاروں پر جانے لگے تو اس وقت حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا تھا کیونکہ کافروں کے مزاروں پر ہر وقت اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی ہے لیکن جب مسلمان وفات پانے لگے اور کفار کے ہاتھوں شہید ہونے لگے تو اس وقت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صرف زیارتُ القبور کی اجازت ہی نہیں فرمائی بلکہ اپنے عمل مبارک سے اہلِ ایمان کی قبروں کی زیارت کو عملی سنت کے درجہ پر فائز فرما دیا۔۔۔ خود نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے غلاموں کی مزارات کی زیارت کے لیے باقاعدہ سفر فرمایا۔ اب ہم تفصیل سے ان احادیثِ مبارکہ کو درج کریں گے، جن میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے باقاعدہ اجازت فرمائی اور خود بھی تشریف لے گئے۔ مُستند احادیثِ مبارکہ مکمل حوالہ جات سے ملا حظہ فرمائیں۔ ہر حدیث کے شروع میں حسب سابق حوالہ درج ہو گا۔
مسلم شریف بحوالہ مشکوٰة شریف جلد نمبر 1، باب زیارتُ القبور، صفحہ 414
حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، اب زیارت کیا کرو۔
مسلم شریف بحوالہ مشکوٰة شریف جلد نمبر 1، باب زیارتُ القبور، صفحہ 415
حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم انہیں سکھاتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو کہیں، اے مومنوں اور مسلمانوں کے گھر والو، تم پر سلام ہو انشاءاللہ ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں ہم اللہ سے اپنے اور تمھارے لیے عافیت مانگتے ہیں۔
مذکورہ حدیث مقدسہ میں باقاعدہ حضرت بریدہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہمیں زیارتُ القبور کا طریقہ تعلیم فرماتے تھے جس طریقہ میں اہلِ قبور کو حاضر کے صیغہ سے پکارنے کے الفاظ موجود ہیں یعنی ”اے“ کہہ کر مدفون اہلِ ایمان کو سلام پیش کیا کرو اگر خدانخواستہ وہ سنتے ہی نہ ہوتے تواس طرح سلام دینے کی تعلیمات کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ان حادیثِ مبارکہ سے یہ بات بھی واضح ہے کہ تم صرف اہل ایمان کی قبور پر حاضر ہو کر سلام پیش کیا کرو۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ جب تمھیں منع کیا گیا تھا تو کفار کی قبروں سے منع کیا گیا تھا اب چونکہ اہل ایمان بھی قبروں میں دفن کیے جا رہے ہیں اب ضرور ان کی زیارت کیا کرو اور سلام دعا سے اس مقدس مقصد کی تکمیل کیا کرو، اسی طرح آگے حدیث مبارکہ ہے۔

مسلم شریف بحوالہ مشکوٰة شریف جلد نمبر 1، باب زیارتُ القبور، صفحہ 415
حضرت عائشہ ؓ سے روات ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ تھا کہ جب رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ان کے ہاں سب کی باری ہوتی تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم آخر رات میں بقیع کی طرف نکل جاتے۔۔ فرماتے اے مومن قوم کے گھر والو تم پر سلام ہو، خدایا بقیع والوں کو بخش دے۔

مسلم شریف بحوالہ مشکوٰة شریف جلد نمبر 1، باب زیارتُ القبور، صفحہ 416
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے (کہ میں نے) عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں زیارتُ القبور میں کیا کروں۔۔۔۔ فرمایا یوں کہا کرو کہ مومنوں مسلمانوں کے گھر والوتم پر سلام ہو۔
مسند امام احمدبحوالہ مشکوٰة شریف جلد نمبر 1، باب زیارتُ القبور، صفحہ 416
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ میں اپنے گھر (یعنی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ مقدسہ میں حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا موجودہ روضہ مبارکہ ہے) میں جس میں رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مدفون ہیں یو نہی چادر اٹکارے چلی جاتی تھی اور کہتی تھی ایک میرے زوج ہیں اور ایک میرے والد پھر جب حضرت عمر ؓ دفن ہوگئے تو رب کی قسم حضرت عمر ؓ سے شرم کے باعث بغیر کپڑا لپیٹے اس گھر میں نہ گئی۔
ابن ماجہ شریف بحوالہ مشکوٰة شریف جلد نمبر 1، باب زیارتُ القبور، صفحہ 416
حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، اب تم ان کی زیارتیں کیا کرو۔

تفصیل
مذکورہ احادیث مبارکہ سے واضح ہے کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خود بھی زیارتُ القبورفرمایا کرتے اور بقیع والوں کے لیے سلام اور دعا کے ساتھ اکثر اوقات وہاں تشریف لے جایا کرتے۔ اسی طرح جب حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے زیارت ُالقبور کا ارادہ فرمایا تو ان کو صرف اجازت ہی نہیں مرحمت فرمائی بلکہ مکمل طور پر طریقہ تعلیم فرمایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ انہی تعلیمات پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری وصال اقدس کے بعد بھی عمل پیرا رہیں۔۔۔۔ اور جب حضرت عمر فاروق ؓ کی مزارِ اقدس حجرہ مقدسہ میں تعمیر ہو گئی تو آپ ؓ باقاعدہ حضرت عمر ؓ سے حیاءکے باعث پردے کا اہتمام فرمانے لگیں۔ جس سے مائی صاحبہ ؓ کا عقیدہ صاف ظاہر ہے کہ آپ ؓ مکمل طور پر رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب ؓ کی مزارات پر صرف حاضری نہ دیتیں بلکہ اہل مزارات کو زندہ سمجھتی تھیں۔ کیونکہ پردہ زندہ سے کیا جاتا ہے۔۔۔ نہ کہ مردہ سے۔ اسی لیے حضرت عمر ؓ سے حیاءکے باعث کپڑا اوڑھ کر جاتیں۔

فوت شدہ کو ثواب سے فائدہ دینا۔
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 1298
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص بارگاہِ رسالت میں عرض گزار ہوا کہ میری والدہ محترمہ کا اچانک انتقال ہو گیا ہے، اگر انہیں قوت گویائی حاصل رہتی تو خیرات کرتیں، اگر میں ان کی جانب سے خیرات کروں تو کیا انھیں ثواب ملے گا؟ فرمانِ رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہوا، ہاں (تم) ان کی جانب سے خیرات کرو۔

تفصیل
اس سے معلوم ہوا کہ صاحب ایمان کو کرنے کے بعد صدقہ خیرات کا ثواب ملتا ہے اسی لیے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابی ؓ کو بتایا کہ ہاں تم ایسا کرو تمھاری والدہ کو اس کا ثواب پہنچ جائے گا۔

No comments:

Post a Comment

آمدو رفت