Mymenu

Pages

Darust Aqeeda

درست عقیدہ - ندائے حق


یزداں کی عنایت پہ اِک شرط وفا تیری
دستورِ نبوت یا ترتیبِ محبت ہے
توحید پرستوں کا عمرانؔ عقیدہ ہے
اِک شوقِ محمدؐ سے پُرکیف عبادت ہے

 !معزز سامعینِ محترم

اللہ کریم اپنے حبیبِ مکرم ﷺکے طفیل ہمیشہ صراطِ مستقیم پر قائم رکھے جوکہ انعام یافتہ بندوں کا راستہ ہے اور انعام یافتہ بندوں کے فیض بخش آستانوں اور محفلوں سے ہمیشہ فیوض وبرکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے رکھے۔۔۔اور جن لوگوں پر غضبِ خداوندی نازل ہوا ہے اُن کے شر سے اپنی حفاظت میں رکھے ۔ امین۔
میرے بزرگوں دوستوں!آج میں نے آپ کے سامنے اسی مناسبت سے سورہِ فاتحہ کی آخری آیتِ مقدسہ تلاوت کرنے کا شرف حاصل کیا ہے جسمیں اللہ کریم اپنی بارگاہ میں قیام کرنے والے اہلِ اسلام کو ایسے لوگوں کے راستہ اور شر سے بچنے کی دُعا تلقین فرما رہے ہیں جواللہ تعالیٰ کے اعلانِ جنگ سے خبردار نہیں ہوئے بلکہ جنگ کرکے مستقل غضب وعذاب کا شکار ہوگئے ہیں، آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے ۔۔۔وہ ایسے لوگ ہیں جو انعام یافتہ بندوں کی ضد ہیں، یعنی ایک گروہِ رحمن ہے اور دوسرا گروہِ شیطان،ایک کا راستہ مانگنے کا حکم ہے اور دوسرے کے راستے سے بچنے کاحکم ہے،ایک گروہ بارگاہِ خداوندی میں مقبول ہے جب کے دوسرا مردود ہے ،اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی انعام یافتہ کے راستہ میں ہے اورسخت ناراضگی عذاب یافتہ کے راستہ میں ہے،اسی لیے اپنی بارگاہ میں کھڑے نمازی کو رب تعالیٰ نے خود دُعا عطا فرمائی ہے کہ تمھاری اصل نجات انعام یافتہ کے راستہ میں ہے اور دائمی گرفت عذاب یافتہ کے راستہ میں ہے لہٰذا جہاں انعام یافتہ کا راستہ طلب کرو۔۔۔وہاں ہی عذاب یافتہ سے رب تعالیٰ کی پناہ مانگو اور اس طرح عرض کرو۔
ترجمہ!’’نہ اُن کا(راستہ)جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا‘‘ (سورہ فاتحہ،آیت نمبر،۷)
میرے دوستو!یہ وہ دُعا ہے جو ہرنمازی بآدب قیام کی حالت میں اللہ کریم کی بارگاہ سے مانگتا ہے اور یہ دُعا بھی نمازی کی اپنی ایجاد کردہ نہیں بلکہ جس کی بارگاہ میں دعا کررہا ہے اُسی معبودِ برحق نے عطا فرمائی ہے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ غضب والے گروہ کی وہ کونسی بنیادی علامات ہیں جن کے ذریعے ہم ان کو پہچان کر ہرقسم کے حالات میں ان سے بچ سکتے ہیں،اس معاملہ میں بھی اللہ کریم اور اللہ کے پیارے حبیب ﷺنے ہماری مکمل راہنمائی فرمائی ہے،اگر تاریخِ آدم علیہ السلام ہی کا قرآن واحادیث سے مطالعہ کریں اور انعام یافتہ سے بیٹھ کرسمجھیں تو اس گروہ کی پہچان مشکل نہیں ہے، سب سے پہلے اس گروہ کے لیڈر یعنی شیطان کی بات کرتے ہیں کہ وہ کیوں اور کیسے غضبِ خداوندی کا نشانہ بنا، کیا ہمیشہ سے اُس پر لعنت برس رہی تھی،کیا وہ ہمیشہ سے مردود تھا؟ نہیں میرے دوستو ایسا نہیں ہے بلکہ ایک وقت تھا کہ وہ ملائکہ کا مدرس تھا اور مختلف آسمانوں میں اُس کی جداگانہ نام سے عزت وشہرت تھی۔۔۔اور ساتویں آسمان میں اُسے عزازئیل کہہ کرپکارا جاتا تھا، توحید پرستی اور خشک عبادت میں اپنی مثال نہیں رکھتاتھا۔۔۔لیکن جب اللہ کریم نے اپنے پیارے نبی حضرت آدم علیہ السلام کو انعام واکرام سے نوازا اور تمام ملائکہ سے اُن کو تعظیمی سجدہ کروایا ۔۔۔تواُس وقت اس خشک عبادت گزار اورنام نہاد توحیدی کی حقیقت کھل کر سب کے سامنے آگئی،یعنی ابلیس کی، اس نے حکمِ خداوندی کا انکار کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام کو جھکنے سے انکار کردیا،وہی اس کا سر جو بے شمار مرتبہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجود کرچکا تھاجب رب تعالیٰ کے حکم پر تعظیمِ نبیؑ سے مڑا تو اس پر لعنت برسنے لگی، اس واقعہ کا اللہ کریم نے سورہِ البقرہ آیت نمبر ۳۴میں اس طرح ذکر فرمایا ہے ،ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
’’اور(یاد کرو)جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو توسب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا‘‘
اور سورہ الزمرآیات نمبر ۷۳،۷۴ میں اس طرح فرمایا۔
’’توسب فرشتوں نے سجدہ کیاایک ایک نے کوئی باقی نہ رہا مگر ابلیس نے غرورکیاوہ تھا ہی کافروں میں‘‘
میرے دوستو! یہ بہت اہم واقعہ تھا جسکی وجہ ہی سے ہمیں سورہِ فاتحہ میں انعام یافتہ کی پیروری کا حکم دیا جارہا ہے ،ابلیس اور ابلیس کے پیروکاروں سے بچنے کا فرمان دیا جارہاہے، یہی وہ اہم واقعہ ہے جس سے دوگروہوں کی علیحدہ علیحدہ پہچان بن گئی ،ایک گروہِ رحمن اور دوسرا گروہِ شیطان، ایک انعام یافتہ اور دوسرا لعنت یافتہ،یہاں یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ بظاہر دونوں گروہ توحید پرست ہیں کوئی بھی کسی دوسرے کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرتے ہیں لیکن ایک کی توحید پرستی مقبول ہے اور دوسرے کی مردود ہے، دونوں میں فرق کیا ہے؟ صرف ایک ہی نمایاں فرق ہے کہ انعام یافتہ کی توحید پرستی میں تعظیمِ انبیاء کرام اور اولیاء کرام شامل ہے جبکہ ابلیس کی توحیدپرستی میں تعظیمِ انبیاء کرام و اولیاء کرام شامل نہیں بلکہ اس توحید پرستی میں انعام یافتہ کی پیروری اور ادب و احترام کو شرک وبدعت کہا جاتا ہے حالانکہ یہ عمل تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے جو نہ شرک ہے اور نہ بدعت ہے ،بدعت تو ویسے بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ نئی ایجاد نہیں ہے بلکہ تخلیقِ آدم ؑ کا واقعہ ہے یعنی تعظیم کرنے والے بھی پرانے ہیں اور ان کا تعظیمی دستور بھی پرانا ہے ، اسی طرح انکار کرنے والا بھی پرانا ہے اور اس کا یہ طریقہ بھی پرانا ہے۔
اب آپ خود فیصلہ فرمائیں کہ تعظیمِ آدم میں کس کی خوشنودی تھی اور انکار میں کس کی؟کیا حضرت آدم علیہ السلام کو جھکنے والے مشرک تھے؟ہر اہلِ ایمان یہی جواب دے گا کہ ہرگز نہیں ۔۔۔نبی اللہ کی تعظیم تو اللہ تعالیٰ نے خود کروائی ،اسی لیے سر کو جھکانے والے انعام پاگئے اورحقیقی توحید پرست کہلائے،جبکہ انکار کرنے والا ہمیشہ کیلئے لعنت کا مستحق ٹھہرااور اُس کی تمام عبادت نیست ونابود کردی گئی۔
بلاشبہ آج بھی یہی پہچان ہے ،یعنی اگر آپ کسی کو توحید پرست سمجھتے اور جانتے ہیں اور وہ آپ کو توحید پرستی کے متعلق تبلیغ بھی کرتا ہے تو پہلے ٹھہر کرچیک کریں کہ اس کی توحیدپرستی مردود ہے یا مقبول ہے یعنی اس کی توحیدپرستی میں تعظیمِ انبیاء کرام واولیاء کرام بھی شامل ہے یا اس کا انکار کرتا ہے اگر انکار کرتا ہے تو آپ اُس کی بات سننے سے انکار کردیں اور اُس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں۔
ترجمہ!’’نہ اُن کا(راستہ)جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا‘‘ (سورہ فاتحہ،آیت نمبر،۷)
؂جو اُن کا نہیں بندہ شیطان کا بندہ ہے
توحید پرستی میں تعظیمِ رسالت ہے
میرے دوستو!آج کل اس جماعت نے واضح طور پر انکار کرنے والا طریقہ چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس طرح کسی مسلمان کوآسانی کے ساتھ دھوکہ نہیں دیا جاسکتا ۔۔۔ اس لیے انہوں نے مسلمانوں ہی کا مکمل روپ اختیار کرلیا ہے جس کے ذریعے سے انہوں نے قرآن واحادیث کے درس وتدریس سے لے کر نماز ،روزہ ، حج، زکوٰۃ اور کلمہ وغیرہ کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا ہوا ہے اور مساجد سے لے کر درسِ قرآن کے نام پر کئی وہاب گڑھ بنا رکھے ہیں،لہٰذا آپ کے پاس بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہی کا بتایا ہوا راستہ ہے یعنی انعام یافتہ بندوں کا راستہ، اس طرح آپ ان کے شر سے بچ جائیں گے۔
بقول علامہ محمد اقبالؒ 
کہتا ہے زمانے سے یہ دُرویشِ جوانمرد
جاتا ہے جدھر بندہِ حق تو بھی اُدھر جا
بقول عارفِ کھڑیؒ 
راہ دے راہ دے ہر کوئی آکھے میں وی آکھاں راہ دے
بِن مرشد دے راہ نئیں لبھناں رل مرسیں وچ راہ دے
معلوم ہوا کہ ان کی واضح پہچان تعظیمِ انبیاء کرام واولیاء کرام کا انکار کرنا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر ابلیس کو توحید پرست ہونے کے باوجود کافر قرار دیا ہے،کیونکہ یہ تعظیم خود اللہ تعالیٰ کا حکم اور خوشنودی کا ذریعہ ہے اور اس سے انکار کرنا ابلیس کی خوشنودی کا سبب ہے۔
کم بخت کیا جانیں توحید پرستی کو
اِک عشق محمدؐ سے سجدوں میں حلاوت ہے
حضرت موسیٰ علیہ السلام اورشیطان:
ایک دفعہ شیطان حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض گزار ہواکہ اے موسیٰؑ ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسالت کے بلند مقام پر فائز فرمایا ہے اور آپ سے ہمکلام بھی ہوتا ہے ،آپ برائے مہربانی رب تعالیٰ کے حضور میری سفارش کریں تاکہ جو میں نے جرم کیا ہے اُس کی مجھے معافی مل جائے،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کمال لجپالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شیطان سے وعدہ فرمایا کہ میں تمھاری سفارش کروں گا،چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے رب تعالیٰ کے حضور ابلیس کی سفارش کی،رب تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی سفارش قبول فرمائی،پھر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام شیطان سے ملے تو اسے فرمایا کہ میں نے رب تعالیٰ کے حضور تمھاری سفارش کی ہے رب تعالیٰ نے میری سفارش کو قبول کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ابلیس سے کہہ دیں کہ وہ آج بھی حضرت آدم علیہ السلام کی قبر مبارک کو سجدہ ریز ہوجائے تو ہم اُسے معاف کردیں گے چنانچہ اب تم حضرت آدم علیہ السلام کی قبر مبارک کو سجدہ کردو تاکہ تمھیں معافی مل جائے،یہ سُن کر ابلیس سخت غصہ میں بولا کہ اگر میں نے یہ کام کرنا ہوتا تو پہلے دن ہی کرلیتا ،میں ہرگز خاک کو سجدہ نہیں کروں گا،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ پھراس طرح تو تم پرہمیشہ رب تعالیٰ کی لعنت ہی برستی رہے گی۔
(تلبیس ابلیس)
اور اسی مقام پر پڑھنا چاہیے۔
ترجمہ!’’نہ اُن کا(راستہ)جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا‘‘ (سورہ فاتحہ،آیت نمبر،۷)
میرے دوستو!ہمارے لجپال وغیب دان نبی محترمﷺنے جہاں ہمیں دولتِ ایمان کے خزانے سے مالا مال فرمایا ۔۔۔وہاں ہی اس چوروں کی جماعت سے اس خزانہ کی حفاظت کرنے کا شعور بھی تعلیم فرمایاہے،اسی لیے ہمارے آقا و مولاﷺ نے اس گروہ کی مکمل علامات اور پہچان سے ہمیں آگاہ فرمایا ہے تاکہ ہم ان کے دھوکہ میں آکر دولتِ ایمان سے محروم نہ ہوجائیں ،آئیے میں آپکو اپنے آقا ومولا ﷺکا مستند فرمان مع حوالہ جات سناتا ہوں۔
اہلِ غضب کی پہچان:
بخاری شریف جلد2حدیث نمبر569صفحہ270
بخاری شریف جلد2حدیث نمبر815صفحہ378
بخاری شریف جلد2حدیث نمبر1480صفحہ680
بخاری شریف جلد2حدیث نمبر1778صفحہ827
بخاری شریف جلد3حدیث نمبر1095صفحہ429
حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے یمن سے رسول اللہﷺ کی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا،جس سے ابھی مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی،حضور ﷺ نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم فرمادیا،کچھ لوگوں کو یہ بات ناگوار گزری،جب یہ بات نبی کریمﷺتک پہنچی تو آپ نے فرمایا،کیا تم مجھے امانتدار شمار نہیں کرتے حالانکہ آسمان والے کے نزدیک تو میں امین ہوں اُس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام آتی رہتی ہیں،راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہوگیا،جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں،اونچی پیشانی،گھنی داڑھی، سرمنڈا ہوا اور اونچا تہ بند باندھے ہوئے تھا،وہ کہنے لگا،اے اللہ کے رسول خدا سے ڈرو، آپﷺنے فرمایا،تیری خرابی ہو،کیا میں خدا سے ڈرنے کا تمام اہلِ زمین سے زیادہ مستحق نہیں ہوں؟پھر وہ آدمی چلا گیا،حضرت خالدؓ بن ولیدعرض گزار ہوئے، یارسول اللہﷺ!کیا میں اس کی گردن اڑا دوں؟ فرمایاجانے دو، راوی کا بیان ہے کہ آپ نے پھر اُس کی جانب توجہ فرمائی اور وہ پیٹھ پھیر کر جارہا تھااس وقت فرمایا کہ اس کی پشت سے ایسی قوم پیدا ہوگی جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کو بڑے مزے سے پڑھے گی لیکن قرآنِ کریم ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا،دین سے اس طرح نکلے ہوئے ہوں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے،میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں اُن لوگوں کو پاؤں تو قومِ ثمود کی طرح انہیں قتل کردوں۔
عزازیل کے مراتب کیوں خاک میں مِلے ہیں
تعظیم کے جو مُنکر لعنت اُٹھا رہے ہیں
دین سے خارج ہوں گے:
بخاری شریف جلد2حدیث نمبر815صفحہ378
حضرت ابوسعیدؓ خدری فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر تھے اور آپ مال تقسیم فرما رہے تھے پس بنی تمیم کا ایک شخص ذوالخویصرہ نامی آیا اور کہنے لگا،یارسول اللہ ﷺ! انصاف سے کام لو،آپ نے فرمایا،تیری خرابی ہو، اگر میں انصاف نہ کروں تو ناکام و نامراد رہ جاؤں گا،حضرت عمرؓ عرض گزار ہوئے ، یارسول اللہ ﷺ!اجازت مرحمت فرمائیے کہ میں اس( گستاخ )کی گردن اڑا دوں،فرمایا،جانے دو کیونکہ اس کے اور بھی ساتھی ہیں تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے بالمقابل حقیر جانو گے اور اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے بالمقابل،یہ قرآن بہت پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا،یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے شکار سے تیر نکل جاتا ہے اگر ان کے پکڑنے کی جگہ کو دیکھا جائے تو کچھ نہیں ملے گا۔
اور مولا علیؓ کی روایت( بخاری شریف جلد2حدیث نمبر816صفحہ379) میں آخری الفاظ اس طرح ہیں کہ حضورﷺنے فرمایا کہ آخر زمانے میں ایک ایسی قوم آئے گی جو عمر کے لحاظ سے چھوٹے اور میزان پر کھوٹے ہوں گے وہ سرورِ کائناتﷺ کی حدیثیں بیان کریں گے لیکن اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیر،تم جہاں بھی انہیں پاؤ قتل کر ڈالو کیونکہ قیامت کے روز ان کے قاتل کو ثواب ملے گا۔
اِس میں قصور کس کا اندھے بنے رہو تو
روشن خدا کی راہیں چمکارِ مصطفیؐ سے 
میرے دوستو!ان فرمودات کو سننے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس جماعت کے کسی عمل اور گفتگو سے متاثر ہوکر دھوکہ کھا جائے تو اُس کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے جیسے ایک شخص کا تخلص افسوس تھا وہ جب کسی پر ناراض ہوتا تو صرف یہی کہتا تھا کہ تم پر افسوس کوبھی افسوس ہے،لہٰذا ایسے سادہ لوح حضرات پر افسوس کو بھی افسوس ہی کہا جاسکتا ہے ان سے دھوکہ کھانے کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم انعام یافتہ کی محفلوں اور قربتوں سے قرآن واحادیث کا فیضان حاصل نہیں کرتے ، بیان کردہ احادیثِ مبارکہ کے مضامین پر مکمل غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گاکہ وہ بظاہر لمبی داڑھی اور اسلامی لباس میں ملبوس شخص ابلیس ہی کی پیروری کرتا ہوا نبی کریم ﷺکی بارگاہ میں بے ادبی کا مرتکب ہوا، جس کی وجہ سے صحابہ کبارؓ نے اس کے قتل کرنے کی اجازت طلب کی، جس کے بعد نبی کریمﷺ نے اس کے پسِ پشت جماعت کی مکمل نشانیوں کے ساتھ وضاحت فرمائی ہے۔
کیسی تبلیغ:
اگر آپ حضرات کو اس جماعت کے ساتھ تعلق رکھنے والا کوئی شخص نماز، روزہ اور دیگر اعمالِ صالح کے متعلق تبلیغ کرے، اور درسِ قرآن واحادیث کے لیے وہاب گڑھ میں چلنے کی دعوت وغیرہ دے، تو آپ ایک دفعہ ٹھہر کر بیان شدہ احادیث پر غور کرکے اُس سے صرف ایک سوال پوچھیں کہ جناب! نماز، روزہ قرآن وغیرہ دین میں ہیں یا دین سے باہر؟وہ یقیناًآپ سے کہے گا کہ دین میں ہیں توپھر آپ اُس کو بتائیں کہ جو شخص خودلمبی داڑھی اورنمازوں وغیرہ سمیت دین سے باہر ہو بلکہ اس طرح سے نکل گیا ہو جیسے تیر کمان یا شکار سے نکل جاتا ہے تو اُسے دین کے اندرکی چیز سے کیا سروکارہوسکتا ہے ،یہ ظاہرداری کی نمازیں اور روزے وکثرتِ تلاوتِ قرآنِ پاک ان کا جال ہے جس میں سادہ لوح مسلمانوں کو پھنسایا جاتا ہے،حضور ﷺنے تو ان کی نمازوں ،روزوں کے متعلق صحابہ کبارؓ کو بھی فرمایا ہے کہ تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں کے سامنے حقیر جانو گے۔
معلوم ہوا کہ نماز،روزہ ،کلمہ، تلاوتِ قرآنِ پاک ،لمبی داڑھی وغیرہ ان کی پہچان نہیں بلکہ ان کوانبیاء کرام واولیاء کرام کی خفی وجلی گستاخیوں وبے ادبیوں سے پہچانا جاسکتاہے ،ان کوپہچان کران سے دور بھاگنا اور رب تعالیٰ کی پناہ پکڑنا سلامتی ایمان کیلئے نہایت ضرروی ہے کیونکہ
ترجمہ!’’نہ اُن کا(راستہ)جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا‘‘ (سورہ فاتحہ،آیت نمبر،۷)
میرے دوستو! ان کے ہر جال سے محفوظ رہنے کا جونسخہ اللہ کریم نے عطا فرمایا ہے یعنی انعام یافتہ کی سنگت، وہی کامیابی کاواحد راستہ ہے ۔
دست بوسی کی برکت:
حضرت بابا فرید الدینؒ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک مخمور نوجوان گلی سے گزر رہا تھا،اچانک حضرت ابراہیم ادھمؒ اس کے سامنے سے گزرے،اُس نے آگے بڑھ کر اپنا سر ان کے قدموں پر رکھ دیا...پھر اٹھا اور ان کے دستِ اقدس چوم کر آگے چلا گیا،اسی شب اُس نے خواب میں دیکھا کہ جنت میں سیر کر رہا ہوں، اسے بڑی حیرانی ہوئی کہ مجھ جیسا گناہ گار یہاں کیسے پہنچ گیا،ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ غیب سے آواز آئی کہ تمھاری خواب بالکل حقیقت ہے کیونکہ تم نے ہمارے دوست کی دست بوسی کی تھی اورہماری خوشنودی کیلئے ان کی عزت کی تھی اسی وجہ سے ہم نے تجھے بخش دیا ہے اور عزت والوں میں شمار فرمالیا ہے لہٰذا وہ نوجوان نیند سے بیدار ہوتے ہی حضرت ابراہیم ادھمؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔۔۔توبہ کی اور بیعت سے مستفید ہوا۔(اسرارلاولیاء)
ایک مرزائی کا مسلمان ہونا:
حضور آفتابِ سیدنؒ (صابریہ کلسویہ دربار عزیز بھٹی ٹاؤن سرگودھا) نے فرمایا کہ میرے پیر ومرشد حضور سیدن ؒ ولی ایک رات ملکوال میں محفل سجائے بیٹھے تھے کہ اتفاق سے ایک مرزائی بابو غلام محی الدین کا قریب سے گزر ہوا،مردِ کامل کے پُرنور چہرہ نے اپنی طرف ایسی کشش کی کہ کہیں اور جانے کا خیال تک نہ رہا ... آنکھ ہٹائے نہ ہٹتی تھی،پاؤں میں ایک زنجیر سی پڑگئی،دیر تک مردِ حق کے حسنِ حقیقی کے بحرِ بیکراں میں غوطہ زن رہا یہاں تک کہ مرزائیت کی کدورتیں مردِ کامل کی توجہ سے نورِ ایمان میں تبدیل ہونے لگیں،قسمت کا ستارہ چمک اٹھا، آنکھوں سے احمدیہ فریب کی پٹی کھل گئی اور آفتابِ ولایت کی کرنیں منزل کو دکھانے لگیں۔
علی الصبح محفل کے اختتام پربابو صاحب بچوں کو ہمراہ لیے،جامع مسجد میں پہنچے اور امام مسجد وخطیب سید عبدالرحمن صاحب سے درخواست کی کہ آپ ہمیں حضرت محمد مصطفی ﷺکا کلمہ پڑھائیں اور ہمارے مسلمان ہونے اور مرزائیت سے توبہ کرنے کا اعلان کردیں،یہ سُن کر امام صاحب نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے پوچھاکہ آپ کس چیز سے متاثر ہوکرمسلمان ہورہے ہیں؟کیا قرآن شریف کا باغور مطالعہ کیا ہے یاکسی عالمِ دین کے وعظ یا کتب سے استفادہ کیا ہے؟بابو صاحب نے کہا،جناب!ہم آباء اجداد سے مرزائیت کو راہِ راست سمجھ کر عمل پیرا تھے...احمدیہ لٹریچروں کا ہمہ وقت مطالعہ ہمیں قرآن شریف ودیگر اسلامی کتب کا کہاں موقع فراہم کرتا تھا؟ہم مکمل طور پر مرزائیت کی ابلیسی دلدل میں گھرے ہوئے تھے،آج رات خوش قسمتی سے ایک مردِ مومن اور انعام یافتہ کا چہرہ دیکھنا نصیب ہوا ہے وہ چہرہ جناب حضرت پیر سیدن شاہ صاحب صابریؒ کا ہے جن کے پُرانوار مکھڑے کی زیارت کرتے ہی میرے دل کی دنیا بدل گئی ہے اور میرے دل نے گواہی دی ہے کہ یہ چہرہ سچے دین کی علامت ہے اور یقیناًمرزائیت شیطانی فریب ہے بلاشبہ ولیِ کامل حضرت پیر سیدن شاہ صاحبؒ کا دین ہی دینِ برحق ہے چنانچہ میں نے اس پیکرِ حُسن وجمال کے سامنے کھڑے ہوکر ہمیشہ کیلئے مرزائیت سے توبہ کرلی تھی اور آج میں خدا کے گھر میں کھڑا ہوکر خدا کا شکر ادا کرتاہوں جس نے ہماری راہنمائی کیلئے شاہِ سیدنؒ جیسے لامثال شاہکار پیدا فرمائے ہیں جن کا مقدس چہرہ ہی وحدانیت اور برحق رسالت کا قوی ثبوت ہے، لہٰذا ہمیں کلمہ شریف پڑھا کر دینِ محمدیہﷺ میں داخل فرمائیں،یہ سُن کر امام صاحب کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے اور انہوں نے سپیکر کھول کر سیدن حضورؒ کی اس کرامت کا بیان کرتے ہوئے بابو صاحب کے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا۔(فیضانِ سیدنؒ )
ظلِ صابرؒ رُوئے سیدنؒ نیست ممکن ہمسری
صَد سلام اے مردِ کامل افتخارِ عارفاں
پیرِ مَن عمرانؔ توئی ما غلامِ خاکسارم
فضل کُن یاسیدی ما پُراُمیدم دو جہاں
آخرمیں دُعاہے کہ اللہ کریم اپنے محبوبﷺکے تصدق اور انعام یافتہ بندوں کے طفیل اس پیغامِ حق پر عمل کرنے کی اور اس پیغامِ حق کو آگے پھیلاکر دوسرے مسلمان بھائیوں کی بھلائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
امین امین امین
مینوں ذرا وی سخیا وَل ناہیں تیرے بوہے تے کیویں صدا دینی
کھتے شاہی دربار دی شان شوکت کھتے میری کمزور نِدا دینی
دَساں کیسنوں نوں کھول احوال سارے تیرے باہجھ نہ کسے پناہ دینی
پردہ پوش عمرانؔ دا بھرم رکھیں خطاکار دی توڑ نبھا دینی 
ﷺﷺﷺ
جان والیا دُور دراز یارا ہووی منّہ منظور درگاہ شالا
پُور پار پیار دے نال ہووی رکھی مشکل کشا نگاہ شالا
قدم قدم تے نور حضورؐ ویکھیں بخشن قُرب تینوں شہنشاہ شالا 
اِیہہ دُعا عمرانؔ فقیر دی اے کھُلدے جاہن نجات دے راہ شالا

No comments:

Post a Comment

آمدو رفت