Mymenu

Pages

Zikr-e-Haj

ذکرِحج 

ﷺﷺﷺﷺﷺ
تیری رحمتوں کے سائے دونوں جہاں پہ چھائے
سایہء فگن ہیں ایسے سیاہ کار سب چھپائے
عاصی کو آس آقا تیرے آسرے سے ہر دَم
جن کا نہیں ہے کوئی سینے سے تو لگائے
وَالفجر اُن کا مکھڑا دن بھر کا آسرا ہے
والیّل زلف اُن کی راتیں میری سجائے

 !معزز سامعین محترم

اللہ کریم اپنے حبیبِ مکرم ﷺکے طفیل ہمیشہ صراطِ مستقیم پر قائم رکھے جوکہ انعام یافتہ بندوں کا راستہ ہے اور انعام یافتہ بندوں کے فیض بخش آستانوں اور محفلوں سے عشقِ خدا ورسول ﷺکے فیوض وبرکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے رکھے۔۔۔اور جن لوگوں پر غضبِ خداوندی نازل ہوا ہے اُن کے شر سے اپنی حفاظت میں رکھے ۔ امین

میرے دوستو! یہ ذوالحج کا مقدس مہینہ ہے جس میں ساری دنیا سے صاحبِ حیثیت اہلِ اسلام اللہ تعالیٰ ورسول اللہﷺکے بلاوے پر مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ پہنچ رہے ہیں،جہاں حجِ بیت اللہ وزیارتِ روضہء رسولﷺکی سعادت حاصل کریں گے ، جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر صاحبِ حیثیت مسلمان پر زندگی میں ایک دفعہ حج کرنا فرض فرمایا ہوا ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران،آیت نمبر ۹۷ میں فرمایا ہے کہ

ترجمہ!’’اور اللّٰہ کے لیے اس گھر کا حج کرنالوگوں پر فرض ہے جو اس تک چل سکے ‘‘(سورہ آل عمران ،آیت نمبر۹۷)

اللہ تعالیٰ کے اسی حکم پر اہلِ اسلام دنیا بھر سے سرِ زمینِ حجاز کی جانب سفر اختیار کرتے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ کرتے رہیں گے۔
میرے دوستو! آج ہم نے بھی اسی لیے اس موضوع کا انتخاب کیا ہے تاکہ سب مل کر ذکر حج سے فیضیاب ہوسکیں،یعنی معلوم کرسکیں کہ حج کیا ہے؟کس لیے اللہ کریم نے صاحبِ حیثیت اہلِ اسلام پر زندگی میں ایک دفعہ حج کرنا فرض قرار دیا ہے،اس میں تو کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ حج ہے تو اللہ تعالیٰ کی عبادت، مگردیکھنا یہ ہے کہ اس عبادت کا تعلق کس کے ساتھ ہے،ہاں میرے دوستو یہی سب سے اہم اور سمجھنے والی ضروری بات ہے۔
اگرغور کیا جائے توسارے کا سارا حج اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی نشانیوں اور اداؤں پر مبنی ہے،حج میں اُن کاموں کوہی دہرایا جاتا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں نے کیے ہیں،یا اُن مقامات کی زیارت وتعظیم کی جاتی ہے جن کا براہ راست تعلق اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں سے ہے،دوسرے لفظوں میں حج کے متعلق یوں کہنا بالکل درست ہوگا کہ درحقیقت حج اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی یاد منانے کا نام ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی یاد منانا ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔
جسمیں اوّل الذکر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کی آل شامل ہیں کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے سارے جہان کے لوگوں سے چُن لیا ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران،آیت نمبر ۳۳ میں فرمایا ہے کہ

ترجمہ!’’بے شک اللّٰہ نے چُن لیا آدم اور نوح اور ابراہیم کی آل اور عمران کی آل کو سارے جہان سے‘‘(آل عمران،آیت۳۳)

معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے جن بندوں کو سارے جہان کے لوگوں سے چُن لیا ہے انہی کی یاد مناناحج ہے اور انہی کا ذکر کرنا اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے،بلکہ اُن کی یاد منانا اللہ تعالیٰ کا اپنا طریقہ ہے اور انہی کی یاد اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں منائی ہے جیسا کہ حکمِ خداوندی ہے کہ

ترجمہ!’’اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بے شک وہ صدیق تھا (نبی)غیب کی خبریں بتاتا‘‘(سورہ مریم،آیت نمبر۴۱)

اللہ تعالیٰ کے حکم سے ثابت ہوا کہ اللہ کے محبوب بندوں کی یادیں منانا اور یادگاریں قائم کرناکوئی نئی بات نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ طریقہ ہے ،آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی یاد منانااور ان کے مقامات کا ادب واحترام کرنا اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے،مگر یہ خوش نصیبی کی نعمت دلوں کے تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے ،یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ اللہ تعالیٰ کا اپنا فیصلہ ہے،اور اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ بھی سورہ حج میں سنایا ہے جس کی آیت نمبر۳۱ ہے،ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔

ترجمہ!’’بات یہ ہے اور جو اللّٰہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے‘‘(سورہ حج،آیت نمبر۳۱)

اللہ تعالیٰ کے حکم سے واضح ہوا کہ دلوں کے تقویٰ سے ہی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی تعظیم ممکن ہے اور تقویٰ کے لیے دلوں کا انتخاب بھی آدابِ محبوبﷺہے،جیسا کہ آپ پچھلے صفحات پر مطالعہ فرما چکے ہیں۔
تو میں عرض کررہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی یاد منانا ہی عبادت ہے اسی لیے بیت اللہ کی تعمیر کرنے والے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ میری کتاب میں میرے ابراہیم کو یاد کروبے شک وہ سچے نبی تھے یعنی کتاب تو اللہ تعالیٰ کی ہے مگر یاد ابراہیم علیہ السلام کی ہے۔۔۔بیتُ اللہ شریف گھر تو اللہ تعالیٰ کا ہے مگر تعمیر کرنے والے حضرت ابراہیم علیہ السلام وحضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں۔۔۔صفا ومروہ دونوں پہاڑیاں نشانیاں تو اللہ تعالیٰ کی ہیں مگر اُن پر دوڑنے کی ادا اللہ تعالیٰ کی ولیہ حضرت ہاجرہ سلام اللہ کی ہے ۔۔۔مقامِ ابراہیم کے پاس نفل تو اللہ تعالیٰ کیلئے پڑھے جاتے ہیں مگر وہاں قدم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لگے ہوئے ہیں،حجرِ اسود کا بوسہ دینا تو اللہ تعالیٰ کیلئے ہے مگر یہ ادا اللہ کے محبوبﷺ کی ہے مختصراً سارے کا سارا حج عبادت تو اللہ تعالیٰ کی ہے مگریاداللہ کے محبوب بندوں کی ہے، اسی لیے فرمایاہے کہ

ترجمہ!’’اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بے شک وہ صدیق تھا (نبی)غیب کی خبریں بتاتا‘‘(سورہ مریم،آیت نمبر۴۱)

معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی یاد منانا ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اسی یاد کومنانا اور مقاماتِ یارانِ خدا کی تعظیم کرنا ہی حج ہے اور دشمنِ خدا سے اظہارِ نفرت کرنا حج ہے۔

 :حق پرستی اور باطل پرستی

غور کیا جائے تو اس مقدس مہینہ میں سرزمینِ حجاز میں پہنچنے والے تمام حاجی جن جن مناسک کو ادا کرتے ہیں اور جن جن مرحلوں سے گزرتے ہیں اور جن جن مقامات کی زیارتیں کرتے ہیں وہاں بظاہراینٹوں اور پتھروں کے علاوہ تو کچھ نہیں ،دیکھنے میں وہ بھی پتھر ہیں جن کو بت پرست پوجتے ہیں ، وہ بھی پتھرہی ہیں جن کی حق پرست تعظیم وتوقیر کرتے ہیں مگر ایک کی تعظیم حق پرستی اور ایک کو جھکنا باطل پرستی ہے ،فرق کیا ہے؟ ہاں میرے دوستوں بہت بڑا فرق ہے بظاہر نظر آنے والے دونوں جانب پتھر ہی ہیں مگر جن پتھروں کی نسبت اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں سے ہوگئی اُن کی تعظیم حق پرستی ہے اور جن پتھروں کی نسبت شیطان سے ہوگئی اُن کو جھکنا باطل پرستی ہے، جیسے ایک پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقشِ قدم لگے ہوئے ہیں اسی لیے اُس جگہ کو مقامِ ابراہیم کہتے ہیں یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم رکھنے کی جگہ، اُس پتھر نے اپنے اندر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقشِ قدم محفوظ کر لیے ہیں اسی لیے رب تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس پتھر کے پاس ہر حاجی نفل ادا کرے،مطلب کیا ہوا کہ جو پتھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم رکھنے کی جگہ ہے وہ ہمارے سر رکھنے کی جگہ ہے،یعنی یہاں سر جھکانا عین حق پرستی ہے یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے،اسی طرح حجرِ اسود بھی ایک سیاہ رنگ کا پتھر ہے لیکن اُس کا بوسہ لیناعبادت میں شامل ہے،وجہ کیا ہے،آئیے اس کی وجہ حضرت عمر فاروقؓ کی زبانی سماعت فرماتے ہیں۔

  :حجرِ اسودو حضرت عمرؓ

بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر1496صفحہ نمبر630

حضرت عمرؓ حجر اسودکے پاس آئے اور اُسے بوسہ دے کر کہا،میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے جو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع،اگر میں نے نبی کریم ﷺ کوتجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔

بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر1504صفحہ نمبر633
بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر1506صفحہ نمبر634

زید بن اسلم کے والد ماجد سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے حجرِ اسودسے کہا،خدا کی قسم!میں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے،نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع،اگر میں نے رسول اللہﷺکو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی نہ دیتا۔
ان احادیث مبارکہ سے واضح ہے کہ حضرت عمرفاروقؓ نے بھی حجرِ اسود کو بوسہ دینے سے پہلے واضح کردیا ہے کہ میرے نزدیک تو ایک پتھر ہے یعنی تیری اپنی کوئی اوقات نہیں لیکن تجھ کو بوسہ اس لیے دے رہا ہوں کہ تونے اپنے اندر حضورﷺکے لبوں کی مٹھاس سنبھال کررکھی ہوئی ہے،تجھے حضورﷺنے بوسہ دیا تھا اس لیے ہم بھی تجھے بوسہ دے رہے ہیںیعنی تو بوسہء گاہِ مصطفیﷺ ہے،یہ تعظیم حضورﷺ ہی کی وجہ سے ہے۔
اسی طرح صفا ومروہ بھی دو پہاڑیاں ہیں جن پر اللہ کی ولیہ حضرت ہاجرہ سلام اللہ اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کیلئے پانی کی تلاش کیلئے گئی تھیں یعنی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ سلام اللہ اور اپنے دودھ پیتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے موجودہ حرم شریف والی جگہ پر چھوڑ کرواپس چلے گئے تھے،اُس وقت یہ جگہ خوفناک جنگل کے سوا کچھ بھی نہ تھی جہاں دور دور تک زندگی کے کوئی آثار دکھائی نہ دیتے تھے، نہ پانی تھا اور نہ کھانے پینے کیلئے کوئی چیز میسر تھی،چاروں جانب ریت ہی ریت اور خشک پہاڑیاں تھی،
مائی پاکؓ کے پاس صرف چند کھجوریں اور تھوڑا سا پانی مشکیزے میں تھا جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام دے گئے تھے،جب وہ مختصر خوردونوش کا سامان ختم ہوگیا تو پیاس سے حضرت اسماعیل علیہ السلام رونے لگے،ماں سے بچے کی یہ حالت دیکھی نہ گئی اوربچے کو وہیں چھوڑ کر خود پانی کی تلاش میں قریب پہاڑیوں پر تشریف لے گئیں،اور پانی تلاش کرنے لگیں،جہاں بچہ نظروں کے سامنے رہتا وہاں آہستہ ہوجاتیں اور جہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام دکھائی نہ دیتے وہاں سے تیز ہوجاتیں ،اس طرح آپ نے ان دونوں پہاڑیوں پر جنہیں صفاومروہ کہتے ہیں سات چکر لگائے ،اللہ تعالیٰ کو اپنی ولیہ کی یہ ادا اتنی پسندآئی کہ ہر حاجی کیلئے اس ادا کو دہرانا ضروری قرار دے دیا،اور اپنی ولیہ کے قدموں کی برکت سے ان دونوں پہاڑیوں کو اپنی نشانی قرار دے دیا،مطلب کیا ہوا کہ سارے کا سارا حج عبادت تو خدا تعالیٰ ہی کی ہے مگر یاد اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی ہے۔
لہٰذا اسی دوران جب حضرت ہاجرہ سلام اللہ نے اپنے لختِ جگر کی طرف دیکھا تو اُن کے قدموں کی رگڑ سے پانی کا چشمہ پھوٹ نکلا،جس کے اردگردآپ نے ریت اور مٹی کی رکاوٹ بنائی اور اُسے فرمایازم زم یعنی ٹھہر ٹھہر،جس کے باعث وہ آہستہ ہوگیا،اور اُس پانی کو اللہ تعالیٰ نے شفااورتبرک بنا دیا ہے وہ پانی درحقیقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں چوم کر نکلا ہے،آج جسے ہر حاجی اپنے ساتھ بطور تبرک لاتا ہے،مطلب کیا ہوا کہ اللہ کے محبوب بندے کے قدموں کو چوم کر بہنے والا پانی سارے جہان کیلئے شفا اور تبرک ہے،لیکن اس مقدس پانی میں شفا اُسی کیلئے ہے جو اللہ کے محبوب بندوں کی یاد منا کرپیتا ہے،کیونکہ یہی یاد اور یادگاروں کا احترام ہی توحج ہے۔
لیکن جہاں اللہ کے دشمن اور اللہ کے محبوب نبی حضرت آدم علیہ السلام کی تعظیم کے منکر یعنی شیطان کے قدم لگے ہوئے ہیں وہاں کنکریاں مار کر اظہارِ نفرت کرنا حج ہے، یعنی وہ مقامات جہاں ابلیس نے حضرت ہاجرہ سلام اللہ کو فریب دینے کی کوشش کی،جہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی،جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جال ڈالنے کی ناکام کوشش کی،اُن اُن مقامات پر اظہارِ نفرت کرنا حج کے مناسک میں شامل ہے،اورحضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپکی آل کی کامیابی کا جشن منانا اور ہر لحاظ سے اظہارِ محبت کرنا کلی طور پر حج ہے، صرف حج ہی نہیں بلکہ ہر صاحبِ حیثیت کا ہر سال قربانی(عیدِ قربان پر) دینا بھی انہی کی فتح کا جشن اور یاد ہے اسی لیے رب تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

ترجمہ!’’اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بے شک وہ صدیق تھا (نبی)غیب کی خبریں بتاتا‘‘(سورہ مریم،آیت نمبر۴۱)

بلاشبہ یہی یاد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور انہی اللہ کے محبوب بندوں کے قدموں کے نشانات مقاماتِ تعظیم ہیں،یعنی حق پرستی اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی یاد اور اُن سے نسبت رکھنے والے مقامات کی زیارت وتعظیم کا نام ہے اور باطل پرستی اُن سے دشمنی اورشیطان سے دوستی کا نام ہے،یعنی جو اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی یادنہیں مناتا وہ پھر یقین جان لیں کہ شیطان کی یاد مناتا ہے۔
یہ سلسلہ آدم علیہ السلام کی تعظیم اور شیطان کے انکار سے شروع ہوا اور آخر دنیا تک جاری رہے گااسی لیے اللہ تعالیٰ نے حج کی صورت میں بھی وہی یاد رکھ دی ہے ، اور اس یاد کو منانے والے اور مقاماتِ مقدسہ کی تعظیم کرنے والے مقبول کیے جاتے ہیں اور انکار کرنے والے مردود کیے جاتے ہیںیہی طرزِ عبادت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں منظوری کے مقام پر فائز ہوتی ہے ،جس میں اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی یاد اور تعظیم نہیں وہ عبادت ابلیس ہی کی عبادت کی طرح رد کردی جاتی ہے،یہی حق پرستی اور باطل پرستی میں فرق ہے،اجتماعِ حج درحقیقت جشنِ محبوبانِ خدا ہے،توجہ فرمائیں کہ جن اللہ کے محبوب بندوں کے نقشِ قدم لگنے کی وجہ سے پتھر اور پہاڑیاں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں بن گئی ہیں اور اُن مقامات کی زیارت کرنا رب تعالیٰ کی عبادت بن گئی ہے پھر خود اُن کا وجودِ اقدس کس قدر اللہ تعالیٰ کی بڑی نشانی ہے اور اللہ کے نزدیک عزت والا ہے اور جس قبر میں اُن کا سارا جسم دفن ہے وہ مقام کسقدر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کا ذریعہ ہے،اور کس قدر بڑا اللہ تعالیٰ کا نشان ہے۔
اسی طرح جب اسی سرزمینِ حجاز میں اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺکی جلوہ گری ہوئی تو پہلے کے تمام نشانات اپنی جگہ تعظیم کے لائق رہے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری کلام میں اس سارے شہرکی قسم اٹھا کر اس کی عزت واحترام میں بے شمار اضافہ فرمادیامگر یہ قسم اللہ کریم نے سابقہ نشانیوں میں سے کسی نشانی کیلئے نہیں اٹھائی بلکہ صاف فرمایا کہ اے محبوب یعنی حضرت محمدﷺ میں یہ قسم اس لیے اُٹھا رہا ہوں کہ تم اس شہر میں چلتے پھرتے ہو،لہٰذا سورہ بلد،آیت نمبر۱ میں حکمِ خداوندی ہے کہ 

ترجمہ!’’مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو‘‘(سورہ بلد،آیت نمبر۱)

یعنی باقی اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں لے کر آئے اور جہاں جہاں انھوں نے قدم رکھے وہ مقامات تعظیم کے لائق بن گئے جبکہ حضورﷺسر سے لے کر پاؤں تک خود اللہ تعالیٰ کی برہان بن کرآئے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اور کسی وجہ سے شہرِ مکہ کی قسم نہیں اٹھائی ،جیسے مقامِ ابراہیم،صفاومروہ،حجرِ اسود،مزدلفہ،مقامِ عرفات،بیت اللہ،زم زم کا کنواں وغیرہ ان میں سے کسی کی وجہ سے قسم نہیں اٹھائی بلکہ واضح فرمایا کہ اے محبوبﷺان میں سے کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ میں تو اس سارے شہر کی قسم صرف ایک تیرے لیے اٹھا رہا ہوں۔

قسم شہرِ مکہ دی مولا نے چائی
جو نقشِ قدم مصطفی پا گئے نے
اُوہ وسدے نے عمرانؔ ڈیرے قدیمی
جھتے وی سوہنے پھیرا پا گئے نے

جس کا واضح ثبوت قبلہ کی تبدیلی سے بھی عطا فرمایا یعنی جب حضورﷺ مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو کچھ مدت کیلئے بیتُ المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہوگیا مگر حضورﷺنے چاہا کہ میرے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تعمیر کردہ گھرہی قبلہ بنادیا جائے لہٰذا آپ نے دورانِ نمازاس ارادے سے آسمان کی طرف دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تعمیرکردہ مکہ والے گھر کو قبلہ بنا دیا جائے،یہ ادا اللہ کریم کو اتنی پسند آئی کہ اس ادا پر مشتمل قرآن پاک کی آیت نازل فرمادی اوردورانِ نماز ہی قبلہ کی تبدیلی کا حکم صادرفرمادیا،جیسا کہ اللہ کریم نے سورہ بقرہ،آیت نمبر ۱۴۴ میں فرمایا ہے کہ
ترجمہ!’’ہم دیکھ رہے ہیں باربار تمھارا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تم کو پھیر دیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمھاری خوشی ہے ابھی اپنا منہ پھیردو مسجد حرام کی طرف‘‘(سورہ بقرہ،آیت نمبر۱۴۴)
اس سے معلوم ہوا کہ حضورﷺکعبہ کے بھی کعبہ ہیں،آپ کا آسمان کی طرف دیکھنا تھا کہ قبلہ کی تبدیلی کا حکم آگیا،ابھی آپ نے دعا نہیں فرمائی بلکہ صرف خیال مبارک فرمایا ہے اوراُس خیال کے مطابق ہی چہرہ مقدس آسمان کی طرف اٹھانا تھا کہ اللہ کریم نے اپنے محبوبﷺکی رضاکو اپنی رضا بنا لیا۔

تیرے دم قدم نال کعبہ معزز پئیا اُس نوں جھکدا اِیہہ سارا زمانہ
ہے عمرانؔ صدقہ تیرے نقشِ پاء دا خدا نے قسم تیری گلیاں دی چائی 

بلاشبہ اللہ کریم نے اُنہی مقامات کو عزت اور تعظیم کے لائق بنایا ہے اور اپنی نشانی قرار دیا ہے جن کی نسبت اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں سے ہوگئی ہے،اگر آپ سارے مقاماتِ مقدسہ پر غورفرمائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اصل نشانی تو اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے ہی ہیں،اور انہی کی یاد ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور انہی سے نسبت رکھنے والے مقامات ہی زیارت کے لائق ہیں،اور انہی کے نشانات کا ادب واحترام ہی اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے، اور اِنہی کی تعظیم ہی حق پرستی ہے ،اوراِنہی کے تذکرے ہی رب تعالیٰ کو پسند ہیں کیونکہ وہ رب تعالیٰ کی اپنی سنت ہیں۔

ترجمہ!’’اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بے شک وہ صدیق تھا (نبی)غیب کی خبریں بتاتا‘‘(سورہ مریم،آیت نمبر۴۱)

میرے دوستو حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی زیارت بھی حج سے کم نہیں جیسے ایک عارف مرد نے کیا خوب فرمایا ہے کہ

مرشد دا دیدار باہو سانوں لاکھ کروڑا حجاں ہو

یہی وجہ ہے کہ حضورﷺکو محبت سے ایک نگاہ دیکھنے والے اُس اعلیٰ مقام پر فائز ہیں کہ بعد والا کوئی امتی اُن صحابہ کبارؓ کی برابری نہیں کرسکتا،اگر آج کوئی ساری زندگی بھی حرم شریف کے اندر بیٹھا رہے اور مسلسل زیارتِ کعبہ کے علاوہ نوافل پڑھتا رہے مگر وہ اُن کے قدموں تک بھی نہیں پہنچ سکتا جس نے ایک مرتبہ بحالتِ ایمان محبت سے حضورﷺکے چہرہ کو دیکھ لیا ہے اور صحابیت کی صف میں شامل ہوگیا ہے،اسی لیے صحابہ کبارؓ کے جس قدر حضورﷺکی تعظیم کے متعلق واقعات ہیں اُن کی نظیر نہیں ملتی،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہم کو سارے مقامات حضورﷺکی ہی نسبت سے حاصل ہوئے ہیں لہٰذا صحابہؓ کی تعظیمِ رسولﷺ کے متعلق صرف یہاں ایک روایت ملاحظہ فرمائیں۔

  :آدابِ رسول اللہﷺوصحابہ کبارؓ

بخاری شریف جلد2 حدیث نمبر4صفحہ27تا30

عروہ،مسوراورمروان کا بیان ہے

حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہﷺکی تعظیم کا شاندار منظر

’’عروہ صحابہء رسول کو حدیبیہ کے مقام پر غور سے دیکھنے لگا،راوی کابیان ہے کہ وہ دیکھتا رہاکہ جب بھی رسول اللہﷺتھوکتے تووہ کسی نہ کسی صحابیؓ کے ہاتھ میںآتا،جس کو وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا تھا،جب آپ کسی بات کا حکم دیتے تو فوراً تعمیل کی جاتی تھی،جب آپ وضو فرماتے تو لوگ آپ کے مستعمل پانی کو حاصل کرنے کیلئے ٹوٹ پڑتے تھے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے،ہر ایک کی کوشش ہوتی تھی کہ یہ پانی میں حاصل کروں،جب لوگ آپ کی بارگاہ میں گفتگو کرتے تو اپنی آوازوں کو پست رکھتے تھے اورتعظیم کے باعث آپ کی طرف نظر جما کرنہیں دیکھتے تھے،اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا،اے قوم!واللہ، میں بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کرگیا ہوں،میں قیصروکسریٰ اور نجاشی کے دربار میں حاضر ہوا ہوں لیکن خدا کی قسم!میں نے کوئی بادشاہ ایسا نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اس طرح تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد(ﷺ)کے اصحابؓ ان کی تعظیم کرتے ہیں،خدا کی قسم جب وہ تھوکتے ہیں تو ان کا لعابِ دہن کسی نہ کسی آدمی کی ہتھیلی پر ہی گرتا ہے،جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے ،جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو فوراً اُن کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے،جب وہ وضو فرماتے ہیں تویوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ لوگ وضو کا مستعمل پانی حاصل کرنے پر ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجائیں گے،وہ اُن کی بارگاہ میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں اور غایت تعظیم کے باعث وہ ان کی طرف آنکھ بھر کر دیکھ نہیں سکتے،انہوں نے تمھارے سامنے عمدہ تجویز رکھی ہے پس اُسے قبول کرلو‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کبارؓ اپنے آقاومولاﷺکی اسقدر تعظیم کرتے تھے جس کی مثال نہیں ملتی،اسی لیے عروہ عشاقِ مصطفیﷺکا یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ اُس نے اس سے پہلے ایسی تعظیم وتکریم کسی کی ہوتی ہوئی نہ دیکھی تھی،جب حضورﷺاپنا لعابِ دہن نیچے گِرانے لگتے تو صحابہ کبارؓ نیچے ہاتھ رکھ لیتے اور فوراً چہروں وجسموں پر مل لیتے اسی طرح جب حضورﷺ وضو فرماتے تواستعمال شدہ پانی حاصل کرنے کیلئے ٹوٹ پڑتے،کیا صحاؓبہ کو معلوم نہیں تھا کہ وضو کا استعمال شدہ پانی مکروہ ہوتا ہے پھر وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟اس لیے کہ حضورﷺکے استعمال شدہ پانی میں ہربیماری کی شفا ہے، اور نہ ہی اُن کو حضورﷺنے ایسا کرنے سے منع فرمایا،حالانکہ وہ سب سے زیادہ حکم کی تعمیل کرنے والے تھے ،جہاں محبت کامل ہوتی ہے وہاں تعظیم وتکریم کا اظہار پوشیدہ نہیں رہتا ،اسی لیے مکہ کا مشرک تعظیمِ رسول اللہﷺدیکھ کر بول اُٹھا کہ خدا کی قسم!میں نے آج تک کسی بادشاہ کی بھی ایسی تؑ عظیم ہوتی نہیں دیکھی جیسی محمدﷺکے اصحابؓ اُن کی کرتے ہیں۔

جہاں بھر کے شاہوں سے بیشک ہیں اعلیٰ 
جو ادنیٰ سے ادنیٰ بھی تیرے گدا ہیں
عشقِ محمدؐ کے شہداء تو دِیکھو
زمانے میں عمرانؔ ہر سُو بقا ہیں

کیونکہ صحابہ کو معلوم تھا کہ کعبہ کی زیارت وحجِ بیت اللہ،نماز،روزہ،کثرتِ تلاوت قرآن پاک،قربانی،کلمہ وغیرہ سے کوئی صحابی نہیں بن سکتا ،یہ انعامات اور بلند مقامات صرف اورصرف دیدارِ مصطفیﷺہی سے حاصل ہوتے رہے ہیں، بلاشبہ باقی تمام امت پر صحاؓبہ کی فضیلت کی یہی ایک واحد وجہ ہے اور کوئی وجہ نہیں۔

 :حضرت عثمان غنیؓ کا عقیدہ

ایک دفعہ حضورﷺمدینہ منورہ سے مع صحابہؓ مکہ مکرمہ عمرہ کی نیت سے روانہ ہوئے،ابھی راستہ میں ہی تھے کہ کفارکی طرف سے خبریں ملنے لگیں کہ کفار جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں لہٰذا حضورﷺنے وادی رضوان میں پہنچ کرحضرت عثمان غنیؓ کو قاصد بنا کر مکہ مکرمہ روانہ کیا چنانچہ حضرت عثمانؓ غنی نے مکہ مکرمہ پہنچ کر کفار سے ملاقات کی اور انھیں فرمایا کہ حضورﷺجنگ کے ارادہ سے نہیں آئے بلکہ عمرہ کرنے کیلئے مع صحاؓبہ تشریف لائے ہیں،یہ سُن کر کفارِ مکہ نے کہا کہ ہم محمدﷺ اور ان کے ساتھیوں کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتے البتہ تمھیں اجازت دیتے ہیں کہ تم طوافِ بیت اللہ بھی کر لو اورصفاومروہ کی دوڑ بھی کرلومختصراً تمھیں عمرہ کرنے کی اجازت ہے،یہ سُن کر حضرت عثمانؓ غنی نے جلال کے انداز میں فرمایا،اے قریشانِ مکہ! تم مجھے کہتے ہو کہ میں حضورﷺکے بغیر بیت اللہ کا طواف بھی کرلوں،حجرِ اسود کو بوسہ بھی دے لوں،صفاومروہ کی دوڑ بھی کرلوں،مقامِ ابراہیم پر نفل بھی پڑھ لوں،یاد رکھو کہ میں جن کی وجہ سے ان مقامات کا احترام کرتا ہوں وہ وادیِ رضوان میں موجود ہیں،اگروہ خود آئے تو جو کچھ اُنھوں نے کیا ،میں بھی کرلوں گالیکن اُن کے بغیر عمرہ تو دور کی بات ہے میں نے بیت اللہ کی طرف نظر اُٹھاکر دیکھنا بھی نہیں،مجھے حضورﷺکے بغیر ان مقامات سے کیا غرض ہے ،جن کی وجہ سے یہ تمام نشانات میرے نزدیک مقدس ہیں وہ میرے آقا ومولاﷺہیں۔
سبحان اللہ یہ ہے صحابہ کبارؓ کا عقیدہ،کہ حضرت عثمانؓ نے حضورﷺکے بغیر بیت اللہ کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا،کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ جس کیلئے اس سارے شہر کی رب تعالیٰ نے قسم اُٹھائی ہے وہ ذات ہمارے آقا ومولاﷺ ہی کی ہے،اُن کے بغیر تو ہمارے پاس رب تعالیٰ کا بھی کوئی ثبوت نہیں،بیت اللہ کا طواف کیا معنی رکھتا ہے۔
(معارج النبوۃ جلد۳،صفحہ ۲۷۵)

بالکل میرے دوستو حقیقت یہی ہے کہ اگر ہمارے نزدیک بیت اللہ ودیگر مقاماتِ مقدسہ قابلِ احترام ہیں تو وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺہی کی وجہ سے ہیں،انہی کا وجوداللہ تعالیٰ کی برہان ہے۔

مخفی خدائی مخزن بٹتا ہے تیرے صدقے
محور ہے ذات تیری سلطان شاہِ عربیﷺ
درسِ توحید کیا ہے تیرا عشق جو نہ ہو تو
دینِ خدا کی اوّل پہچان شاہِ عربیﷺ

صحابہؓ کے عقیدہ سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے لے کر جملہ مقاماتِ مقدسہ پریقین حضورﷺہی کی وجہ سے ہے،بلاشبہ اللہ ایک ہے لیکن ہمارے پاس اس عقیدے کا ثبوت کیا ہے؟ صرف اور صرف حضورﷺکی ذات،بلاشبہ قرآن رب تعالیٰ کا کلام ہے لیکن ہمارے پاس اس کا ثبوت کیا ہے صرف اور صرف حضورﷺکی ذات،اسی لیے ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اصل نشانی اللہ تعالیٰ کے محبوب ﷺہیں،جن کی وجہ سے ہی ہم تمام اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی تعظیم کرتے ہیں،بلاشبہ اُن سے نسبت رکھنے والے مقامات بھی ہر اہلِ ایمان کیلئے تعظیم وتوقیر کے لائق ہیں جن کے تذکر ے اور یادیں منانا رب تعالیٰ کا اپنا طریقہ ہے۔کیونکہ

ترجمہ!’’اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بے شک وہ صدیق تھا (نبی)غیب کی خبریں بتاتا‘‘(سورہ مریم،آیت نمبر۴۱)

اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں بھی ان کی یاد منا رہے ہیں،صرف یہ کلمات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ہی نہیں فرمائے گے بلکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق بھی یہی فرمایا کہ میری کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو،حضرت موسیٰ علیہ السلام،حضرت ادریس علیہ السلام ودیگرانبیاء کرام کے متعلق بھی یہی فرمایا،اوراپنی ولیہ حضرت مریم( سلام اللہ) کے متعلق بھی یہی فرمایا کہ میری کتاب میں مریم کو یاد کرو(بحوالہ سورہ مریم)،چنانچہ یہ یادیں صرف اللہ تعالیٰ اپنی کتاب ہی میں نہیں منوا رہے بلکہ ہر سال ان یادوں کا جشن حج کی صورت میں منوایا جاتا ہے ،اور آج تک جسقدر اللہ تعالیٰ کے ولی دنیا میں تشریف لائے ہیں وہ اپنے سے پہلے مقبول بندوں کی یادیں منا کر اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے رہے ہیں،خودنبی کریمﷺہر سال شہدائے اُحد پر تشریف لے جاتے اور اپنے غلاموں کے لیے دُعا فرماتے اور اُن کو سلام پیش فرمایا کرتے،بالخصوص اپنی حیاتِ طیبہ کے آخری سال تو حضورﷺنے جس طرح یاد منائی اس کا مکمل احوال حدیثِ مبارکہ سے سُنتے ہیں۔

 :شہدائے اُحد کی یاد

بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر1257صفحہ نمبر546
بخاری شریف جلد نمبر2حدیث نمبر805صفحہ نمبر374
بخاری شریف جلد نمبر2حدیث نمبر1213صفحہ نمبر555
بخاری شریف جلد نمبر2حدیث نمبر1254صفحہ نمبر572
بخاری شریف جلد نمبر3حدیث نمبر1347صفحہ نمبر526

حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز نبی کریمﷺشہدائے اُحد پر نماز پڑھنے کیلئے تشریف لے گئے جیسے میت پر نماز پڑھی جاتی ہے پھر منبر پر جلوہ افروز ہوکر فرمایا،بے شک میں تمھارا سہارا اور تم پر گواہ ہوں اور بے شک خدا کی قسم،میں اپنے حوض کو اب بھی دیکھ رہاہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کُنجیاں عطا فرمادی گئی ہیںیا زمین کی کنجیاں اور بے شک خدا کی قسم مجھے تمھارے متعلق ڈر نہیں ہے کہ میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم دنیا کی محبت میں نہ پھنس جاؤ۔
(اس حدیثِ پاک کی وضاحت جاننے کیلئے ہماری کتاب سراج یزداں کا مطالعہ فرمائیں)
اس سے معلوم ہوا کہ اپنے انعام یافتہ غلاموں کی یاد منانا حضورﷺکی بھی سنت ہے،اور ہر ولی اللہ نے اپنے سے پہلے اولیاء کرام وانبیاء کرام کی یادیں منائی ہیں اور انشاء اللہ مناتے رہیں گے۔ بقول مولانا رومؒ 

یادِ اُو سرمایہ ایماں بود
ہر گدا از لطف اُو سلطاں بود

یقیناًانعام یافتہ کی یاد اور تعظیم ہی ایمان والوں کی نشانی ہے ،اس معاملے میں رب تعالیٰ کا حکم نہ ماننا شیطان ہی کا طریقہ ہے اور رب تعالیٰ کا واضح حکم ہے کہ

ترجمہ!’’اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بے شک وہ صدیق تھا (نبی)غیب کی خبریں بتاتا‘‘(سورہ مریم،آیت نمبر۴۱)

آخر میں دُعا ہے کہ اللہ کریم اس پیغامِ حق پر عمل کرنے کی اور اس پیغامِ حق کو آگے پھیلا کر دوسرے مسلمان بھائیوں کی بھلائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

امین امین امین

تیری ہی نعمتوں کے ہم گیت گا رہے ہیں
الفت کی روشنی سے دل جگمگا رہے ہیں
بڑا ناز ہم کو تیرا تم صاحبِ کرم ہو
تیری عنایتوں سے جیون نبھا رہے ہیں
تیرے پاک وہ زمانے مہتاب کی مثل ہیں
شبِ زندگی میں روشن منزل دِکھا رہے ہیں
تیرے روپ کا تصور میری زندگی کا حاصل
اسی ایک ہی لگن سے ہم بامزا رہے ہیں
ہے عادتِ کریمی منگتوں کو ڈھونڈتے ہیں
ہر آصی پُرخطا پہ رحمت لٹا رہے ہیں
عمرانؔ کا یہ رونا پُر درد پُر اثر ہے
دیکھو یہ شیخ و زاہد فتویٰ لگا رہے ہیں

ﷺﷺﷺ

عمرانؔ تیرے صدقے شب و روز کٹ رہے ہیں
کچھ غیر ہوں یا اپنے محوِ جفا رہے ہیں

ﷺﷺﷺ

No comments:

Post a Comment

آمدو رفت