شانِ مصطفیٰ - رحمتِ عالمینﷺ
شمس و قمر قربان نثار ہوندے تیرے گنبد دے پاک نشاں اُتے
عرش فرش تمام فدا ہوگئے تیرے دیس حجاز دی تھاں اُتے
قبراں وچ عمرانؔ نجات مِلدی میرے سوہنے محمد دے ناں اُتے
ﷺﷺﷺﷺﷺ
!معزز سامعین محترم
اللہ کریم اپنے حبیبِ مکرمﷺکے طفیل ہمیشہ صراطِ مستقیم پر قائم رکھے جوکہ انعام یافتہ بندوں کا راستہ ہے اور انعام یافتہ بندوں کے فیض بخش آستانوں اور محفلوں سے عشقِ خدا ورسول ﷺ کے فیوض وبرکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے رکھے۔۔۔اور جن لوگوں پر غضبِ خداوندی نازل ہوا ہے اُن کے شر سے اپنی حفاظت میں رکھے ۔ امین۔
میرے دوستو!اگر تاریخِ انبیاء کرام سے لے کر اُن کی امتوں کے ہرشخص کو دیکھا جائے تو سبھی اللہ کریم کی بارگاہ سے رحمت کے امیدوار اور طلب گار نظر آتے ہیں یعنی سبھی اللہ تعالیٰ سے رحمت کا سوال کرتے رہے ہیں اور آج بھی کررہے ہیں ، گناہ گاروں سے لے کر پرہیزگاروں تک،بدکاروں سے لے کر عبادت گزاروں تک،صوفیوں سے لے کر اولیاء اللہ تک، ہر ایک بارگاہِ خداوندی سے رحمت کیلئے جھولی پھیلائے ہوئے ہے،پھر نبی کریمﷺنے یہ بھی فرمایا کہ جب اللہ کریم نے مخلوق کو پیدا فرمایاہے تو لوح محفوظ پر ایک تحریر درج فرمائی ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب آگئی ہے،جیسے
بخاری شریف جلد2 حدیث نمبر427صفحہ218
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا فرما چکا تولوحِ محفوظ میں جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے،لکھ لیا کہ میری رحمت میرے غضب پرغالب آگئی ہے‘‘۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ کریم کی وہ کونسی رحمت ہے جو غضب پر غالب آگئی ہے اور جس کی ساری مخلوق اپنے اپنے انداز میں طلب گارنظرآتی ہے ،اتنی مدت سے مانگی جانے والی دعائیں کیا مسلسل اس لئے مانگی جارہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی فریاد نہیں سن رہا؟ کیا اُس رحمت سے اللہ کریم نے اپنے بندوں کو ابھی تک فیض یاب نہیں کیا؟ نہیں میرے دوستو ایسا نہیں ہے کیونکہ اللہ کریم سخی ہے اور اپنے پکارنے والے بندوں کی پکار کو سنتا ہے اور اُن کی دعاوں کو قبولیت کے مقام پر فائز فرماتا ہے پھر جب رحمت کا سوال ہو تو اللہ کریم فیضاب نہ فرمائے یہ تو ہوہی نہیں سکتا ،یقیناًاللہ کریم نے تو ضرور ہمیں اپنی رحمت سے فیضاب فرمایا ہوگا لہٰذا اللہ کریم کی لاریب کتاب یعنی قرآنِ پاک کی بارگاہ میں یہی سوال پیش کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اے کلامِ الہی! تو ہماری اور ہم سے پہلے والوں کی مانگی ہوئی دعا کا جواب عطا فرما،کیا ہماری دعائیں قبول ہوئیں یانہیں؟ اگر قبول ہوئیں تو اُس کی خبر سے ہمیں بھی فیضیاب فرماتاکہ ہمارے دلوں کو نعمتِ تسکین ملے،جب ہم یہ سوال قرآنِ پاک پر پیش کرتے ہیں تو آگے سے یہی جواب آتا ہے کہ غور سے پڑھو، اللہ کا وعدہ سچا ہے اُس نے تمھاری سنی اور اپنی رحمت سے خوب فیض یاب فرمایا لہٰذا رب تعالیٰ کی رحمت کے متعلق رب تعالیٰ کا اعلانِ لاریب سنو۔
ترجمہ : اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے ( الانبیاء ، 107
ہاں میرے دوستو اللہ کریم نے ہم پر بے شمار فضل وکرم فرمایا اور عالمین کی رحمت سے فیض یاب فرمایا یہ علیحدہ بات ہے کوئی صرف اس دنیا کی زندگی تک فیضانِ رحمت حاصل کرنے والا ہے اور کوئی روزِ قیامت تک مستفید ہونے والا ہے ، بلاشبہ فیضانِ رحمت تو اس قدر جاری ہے کہ کوئی رحمتِ عالمﷺپر ایک دفعہ درود وسلام بھیجے تو اللہ تعالیٰ دس بار (اور بعض روایات کے مطابق ستر بار)رحمت سے فیض یاب فرماتا ہے ،ابرِ رحمت تو برس رہا ہے اگر کسی نے برتن ہی الٹا رکھا ہوا ہے تو وہ کیسے مستفید ہوسکتا ہے؟یہاں تک کہ اللہ کریم نے تو قیامت کیلئے رحمتِ عالم ﷺکے درسے توبہ کی قبولیت کا اعلان سنا رکھا ہے،لہٰذا
سورہ النساء آیت نمبر۶۴ میں اللہ کریم کا اعلانِ برحق ہے ۔
’’ اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمھارے حضور حاضر ہوں پھر اللّٰہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرما دیں تو ضرور اللّٰہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں‘‘(سورہ النساء آیت نمبر 92
میرے دوستو !اس آیہ کریمہ پر غور فرمائیں کہ بندہ نافرمانی تو کرے اللہ تعالیٰ کی مگر توبہ کرے بارگاہِ رسالت میں اور اگررسول اللہﷺگناہ گار کیلئے شفاعت فرمائیں تواللہ تعالیٰ کی طرف سے عنایات کے دروازے کھل جائیں گے، یعنی گناہوں کی معافی دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہے مگر صدقہ مصطفیﷺمعافی عطا فرمائے گا ،پھر اس آیہ کریمہ میں صرف مدینہ منورہ کی قید نہیں لگائی گئی بلکہ جہاں بھی سائل حضورِ قلب سے رحمتِ عالمﷺکو پکارے گا تو یقیناًاُس کی پکار سنی جائے گی،کیونکہ پکارنے کا ہرمقام عالمین سے باہر نہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺکو تمام عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔۔۔اور دنیا کا کوئی مقام بھی رحمتِ عالمینﷺکی دسترس سے باہر نہیں،جیسے رب العالمین کی بات ہو تو مراد ایک ہی رب ہے جو تمام عالمین کا رب ہے جس کی ربوبیت سے کوئی چیز باہر نہیں۔۔۔ اسی طرح رحمتِ عالمینﷺ کی بات ہو تو اُن کی رحمت سے اور انکی دسترس سے کوئی شے باہر نہیں صرف انکار کرنے والے کے لئے اس دنیا ہی میں فیضانِ رحمت ہے اور اقرار کرنے والوں کیلئے دنیا اور آخرت ہر مقام پر رحمت کے سائبان سایہ فگن ہیں۔
:اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا طریقہ
میرے دوستو!جیسے کہ آپ کو معلوم ہے کہ عبادت کی دوبنیادی اقسام ہیں ،عبادت تو اللہ تعالیٰ کیلئے ہی کی جاتی ہے مگر ایک قسم کا تعلق مخلوق کے ساتھ ہے اسی لیے عبادت کی اس قسم کو حقوق العباد کہاجاتا ہے یعنی بندوں کے حقوق،جس میں ماں باپ سے لے کر رشتے داروں اور استاد وپیرومرشد کے حقوق تک شامل ہیں اگر کسی نے خدمت کے حقوق صحیح نہ ادا کرنے کی وجہ سے اپنے ماں باپ وغیرہ کو ناراض کر لیاہے یا اور کسی رشتہ دار کے حق پر ناجائز قبضہ کرلیا ہے جس کے باعث وہ ناراض ہوگیا ہے،اب قانونِ خداوندی یہ ہے کہ جب تک آپ متعلقہ بندے کو راضی نہیں کرلیتے تب تک اللہ تعالیٰ آپ پر راضی نہیں ہوگا،یعنی کسی نے اگر اپنے باپ کو کسی گستاخی یا نافرمانی کے سبب ناراض کرلیا ہے تو وہ اگر مسجدمیں جاکراللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا رہے کہ یااللہ میں نے اپنے باپ کی فلاں بے ادبی کی جس کے باعث وہ مجھ سے ناراض ہوگیا ہے لہٰذا تو مجھے معاف فرما دے۔۔۔تو ایسے سوالی کے متعلق حقوق العباد کا فیصلہ یہ ہے کہ پہلے اپنے باپ کو راضی کر پھر اللہ کریم سے معافی مانگ تو یقیناًباپ کے راضی ہونے پر اللہ کریم بھی معاف فرما دیں گے اور راضی ہوجائیں گے یہی حقوق العباد کا تقاضا اور فیصلہ ہے۔
لیکن اگر کوئی حقوق اللہ میں غفلت اور لاپرواہی اسقدر کرے کہ اُس پر اللہ کریم ناراض ہوجائیں ۔۔۔اب ایسا سائل جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوجائیں وہ اس مشکل ترین وقت میں کیا کرے اور کس طرح اللہ تعالیٰ کو راضی کرے؟
میرے دوستو!ایسے مشکل وقت میں جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی غفلت کے باعث ناراض ہوجائے تو وہ بندہ کیا کرے اور کس کے پاؤں پڑے کیونکہ جب ماں یا باپ کو ناراض کیا تھا تو جاکر اُن کے پاؤں پکڑ لیے تھے اگر کسی اور انسان کی حق تلفی کی تھی تو اس کے دروازے پر چلا گیا تھا اور اُسے راضی کرنے پر اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوگیا تھا اب جبکہ اللہ تعالیٰ کو حقوق اللہ میں غفلت کے باعث ناراض کرلیا اب وہ کس کے دروازے پر جائے اور کس کے پاؤں پکڑ کرمعافی مانگے؟
ہاں میرے دوستو! یہ سب سے بڑی مشکل ہے مگراس مشکل سے نکلنے کا راستہ اللہ کریم نے اپنی مقدس کتاب میں واضح طور پر عطا فرمادیا ہے یعنی جب ہم اپنی یہ مشکل قرآنِ کریم کے حضورعرض کرتے ہیں تو صدائے قرآن آتی ہے کہ جب تم نے حقوق اللہ میں غفلت کے باعث اپنی جانوں پر ظلم کرلیا تو مایوس نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کیلئے محمد مصطفیﷺکی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ اور سچے دل کے ساتھ معافی طلب کرو جب اللہ کے حبیبﷺ تمھاری عرض کو قبول فرما کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت فرمائیں گے تو اللہ تعالیٰ کو مہربان پاؤ گے ،
مطلب یہ ہوا کہ جب ماں کو ناراض کیا تو ماں کے حضورحاضر ہوکر معافی مانگے اور جب باپ کو ناراض کیا تو باپ کے حضورحاضر ہوکر معافی مانگے ۔۔۔اگر استاد یا پیرومرشد کو ناراض کیا تو ان کے حضورحاضر ہوکر معافی طلب کرے لیکن جب اللہ تعالیٰ کو ناراض کرلے تو اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺ کے حضورحاضر ہوکر معافی مانگے اور اگر رسول اللہﷺ شفاعت فرما دیں گے تو اللہ تعالیٰ مہربان ہوجائے گا۔
’’اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمھارے حضور حاضر ہوں پھر اللّٰہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرما دیں تو ضرور اللّٰہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں‘‘(سورہ النساء آیت نمبر۶۴ )
کیونکہ اللہ کریم کا فیصلہ ہے کہ
ترجمہ : اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے ( الانبیاء ، 107
ؐعاصیوں کا آسرا ہے ذات تیری یا نبی
ؐبٹ رہی ہے خوب تَر خیرات تیری یانبی
ؐکس قدر احسان تیرے یاحبیبِ ذوالجلال
ؐبٹ رہی ہے خوب تَر خیرات تیری یانبی
ؐکس قدر احسان تیرے یاحبیبِ ذوالجلال
ؐلُٹ رہی ہے دَم بدم سوغات تیری یانبی
:بہترین زمانے والوں کی مشکل کشائی
اب دیکھنا یہ ہے کہ جن صحابہ کبارؓ کا زمانہ تمام زمانوں سے افضل ہے انھوں نے کس طرح کی نبی کریمﷺکی بارگاہ میں اپنی مشکلات عرض کیں اور رحمتِ عالمﷺسے فیضانِ رحمت حاصل کیاجوکہ تمام امتِ مسلمہ کیلئے مشعلِ راہ ہیں۔ لہٰذا اس متعلق چند مستند روایات پیشِ خدمت ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔
:حضورﷺکے سامنے جھولی پھیلانا
بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر119صفحہ نمبر155
بخاری شریف جلد نمبر2حدیث نمبر849صفحہ نمبر392
حضرت ابوہریرہؓنے فرمایا کہ میں عرض گزار ہوا کہ یارسول اللہﷺ!میں آپ کے ارشادات سُنتا ہوں مگر بھول جاتا ہوں،فرمایا کہ اپنی چادر بچھاؤ،پس میں نے اُسے بچھا دیا۔۔۔پس آپ نے دونوں ہاتھوں سے لپ ڈالی اور فرمایا لپیٹ لو۔۔۔میں نے اُسے لپیٹ لیا تو کسی چیز کو نہ بھولا۔
معلوم ہواکہ بارگاہِ رسالتﷺمیں اپنی مشکل پیش کرنا اور مدد چاہنا کوئی نئی بات یا شرک نہیں ہے کیونکہ رب تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے تقسیم کرنے پررحمتِ عالمﷺ کو مامور فرمارکھا ہے اوراُن سے رحمت کی خیرات طلب کرنا صحابہ کبارؓ کی سنت ہے جن کی پیروری کرنے والے کبھی گمراہ نہیں ہوسکتے،اسی لیے جب حضرت ابوہریرہؓ نے سوال کیا تو حضورﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم شرک کررہے ہو بلکہ فرمایا اپنی چادر میرے سامنے بچھا دو۔۔۔ پھرچادرمیں ایسی چیز کی لپ ڈالی جو بظاہر دکھائی نہیں دیتی تھی مگر آج بھی کثیر احادیث جوکہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہیں حضورﷺکے فیضانِ رحمت تقسیم کرنے پر گواہی دے رہی ہیں کہ اُس کے بعد حضرت ابوہریرہؓ کوئی چیز نہیں بھولے۔
اُلفت تیری اگر نہ ہو حاصل تو کچھ ہوتا نہیں
جس کو مِلا جتنا مِلا تیری عطا صلے علیٰ
:سوالی پر فیضانِ رحمت
بخاری شریف جلد 1حدیث نمبر1806صفحہ733
بخاری شریف جلد 1حدیث نمبر1807صفحہ735
بخاری شریف جلد3حدیث نمبر336صفحہ169
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ’’ ہم نبی کریمﷺکی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی حاضرِ بارگاہ ہوکر عرض گزار ہوا،یارسول اللہﷺ!میں ہلاک ہوگیا،فرمایا کہ تمھیں کیا ہوا؟عرض کی کہ میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے صحبت کر بیٹھا ہوں،رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کیا تمھیں آزاد کرنے کے لیے ایک گردن(یعنی غلام) میسرہے؟عرض کی نہیں،فرمایا کہ کیا تم دو مہینوں کے متواتر روزے رکھ سکتے ہو؟عرض گزار ہوا کہ نہیں،فرمایا کہ کیا تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھِلا سکتے ہو؟عرض کی نہیں،(یعنی اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا) پس نبی کریمﷺکچھ دیر خاموش رہے اور ہم وہیں تھے کہ نبی کریمﷺکی خدمت میں ایک عرق پیش کیا گیا جس میں کھجوریں تھیں،عرق ایک پیمانہ ہے، فرمایا کہ سائل کہاں ہے؟سائل عرض گزار ہوا کہ میں حاضر ہوں، فرمایا کہ انھیں (یعنی کھجوریں)لے کر خیرات کردو(تمھارے روزے کا کفارہ ادا ہوجائے گا) وہ آدمی عرض گزار ہوا،یارسول اللہﷺ!کیا اپنے سے زیادہ غریب پر؟خدا کی قسم! اِن دونوں سنگلاخ میدانوں کے درمیان کوئی گھر والے ایسے نہیں جو میرے گھر والوں سے زیادہ غریب ہوں،پس نبی کریمﷺہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے پچھلے دانت نظر آنے لگے،پھر فرمایا کہ اپنے گھر والوں کو کھلا دو۔
اس حدیث سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتا ہے مگر اُس نے اپنی عطا اور رحمت کا نام محمد مصطفیﷺرکھا ہوا ہے ،بلاشبہ عطا فرمانے والا تو اللہ تعالیٰ ہے مگر وہ بدستِ مصطفیﷺعطا فرماتا ہے اسی لیے جب سائل نے حضورﷺ کی بارگاہ میں سوال کیا تو سرکارﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر تم غلام آزاد نہیں کرسکتے اور نہ ہی متواتر دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو اور نہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھِلا سکتے ہو تو اب اس مسئلہ کا میرے پاس کوئی حل نہیں ،میرے اختیارات تو وہی تھے جو میں نے تمھیں بتا دئیے،نہیں میرے دوستو!میرے آقاﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اَن گنت اختیارات عطا فرمائے ہیں اسی لیے حضورﷺنے سوالی کو مایوس نہیں فرمایا، اور نہ میرے آقا ﷺنے یہ فرمایا کہ تم مجھ سے کیوں مانگنے آگئے ہو،جاؤ اللہ تعالیٰ کے حضور سوال کرؤ،وہی تمھاری ضرورت پوری فرمائے گا،سوالی بھی کوئی عام نہیں تھا بلکہ حضورﷺ کے صحابی تھے جن کو معلوم تھا کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کی ہر عطا باشکلِ مصطفی ہے ،اسی لیے تو رب تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں واضح اعلان فرما دیا ہے۔
ترجمہ : اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے ( الانبیاء ، 107
جن کا نہیں سہارا اُن کا وہ آسرا ہیں
ؐحاجت روا دَوا ہیں واللہ حبیبِ اللہ
:دُعائے برکت
بخاری شریف جلد1 حدیث نمبر2309صفحہ907
حضرت سلمہؓ سے روایت ہے کہ لوگوں کے زادِ راہ ختم ہوگئے اور وہ تہی دست ہوگئے تو لوگ نبی کریمﷺکی بارگاہ میں حاضر ہوئے کہ اپنے اونٹ ذبح کر دیں توآپ نے انھیں اجازت دے دی،انھیں حضرت عمرؓ ملے اور انھیں بتایا توکہنے لگے کہ اونٹوں کے بغیر کیسے گزارہ کروگے؟پس وہ نبی کریمﷺکی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے،یارسول اللہﷺ!اپنے اُونٹوں کے بعد لوگ کیسے گزر اوقات کریں گے؟رسول اللہﷺنے فرمایا کہ لوگوں میں اعلان کروا دو کہ اپنا بچا ہوا زادِ راہ لے آئیں چنانچہ ایک دستر خوان بچھا دیا اور اُس پر وہ سارا جمع کردیاپس رسول اللہﷺکھڑے ہوئے اور اُس پر دعائے برکت فرمائی پھر لوگوں کو بُلایا تووہ اپنے برتن بھر کر لے گئے۔
تیرے دَر کی گدائی سے جسے بھچھیا ملا آقا
اُسی کا دو جہانوں میں ظرف معمور رہتا ہے
میرے دوستو!ان مستند روایات سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ ہر مشکل کے وقت بارگاہِ نبویﷺمیں عرض کرنا کوئی نیا کام یعنی بدعت وغیرہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا طریقہ ہے جس پر صحابہ کبارؓ نے مکمل طور پر عمل کیا ہے یعنی یوں سمجھ لیجئے کہ رحمتِ عالمینﷺکی بارگاہ میں مشکل کے وقت فریاد کرنا حکمِ خداوندی بھی ہے اور صحابہ کباؓر کی سنت بھی ہے کیونکہ اللہ کریم نے اپنے محبوبﷺکو عالمینکیلئے رحمت بناکر بھیجا ہے اوراسی لیے ہمیں آگاہ فرمایا ہے کہ تم اس رحمت سے خوب خوب فائدہ حاصل کرو۔یعنی
ترجمہ : اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے ( الانبیاء ، 107
:بادلوں کی اطاعت
بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر884صفحہ نمبر416
بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر958صفحہ نمبر442
بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر959صفحہ نمبر442
بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر964صفحہ نمبر444
حضرت انس بن مالکؓ نے فرمایا کہ نبی کریمﷺکے زمانہ میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہوگئے،جب نبی کریمﷺجمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے تو ایک اعرابی کھڑا ہوکر عرض گزار ہوا،یارسول اللہﷺمال ہلاک ہوگیا اور بچے بھوک سے مرگئے،اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجئے،آپ نے ہاتھ اُٹھائے،ہم نے آسمان میں بادل کا کوئی ٹکڑا نہیں دیکھا،قسم اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے،ہاتھ کیا اُٹھائے پہاڑوں جیسے بادل آگئے،آپ منبر سے اُترے بھی نہیں کہ میں نے بارش کے قطرے آپ کی ریش مبارک سے ٹپکتے دیکھے،اُس روزبارش برسی،اگلے روز بھی یہاں تک کہ اگلے جمعہ تک،پس وہی اعرابی کھڑا ہوا یا کوئی دوسرا اور عرض گزار ہوا،یارسول اللہﷺ مکانات گِر گئے اور مال ڈوب گیا،اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجئے پس آپ نے ہاتھ اُٹھائے اور کہا،اے اللہ!ہمارے اِردگرد،ہم پر نہیں،پس جس طرف دستِ مبارک سے اشارہ کرتے اُدھرکے بادل چھٹ جاتے یہاں تک کہ مدینہ منورہ ایک دائرہ سابن گیا،اور جو بھی آتا اس بارش کا حال بیان کرتا۔
سبحان اللہ واضح طور پر صحابہ کبارؓ کا عمل بتا رہا ہے کہ حضورﷺ کی بارگاہ میں مشکل کے وقت فریاد کرنا افضل زمانے والوں کی افضل سنت ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا طریقہ بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جب بھی عطا فرماتا ہے تو وہ دستِ مصطفیﷺسے ہی عطا فرماتا ہے،جب حضورﷺنے اعرابی کی عرض پر اپنے ہاتھ اُٹھائے تو اسقدر بارش برسی کہ اگلے جمعہ تک برستی رہی،اللہ تعالیٰ کی رحمت کو گوارا نہیں تھا کہ جسے دوعالمﷺکے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے وہ ہاتھ اُٹھائے تو پھر عطا کا سلسلہ اُن کی مرضی کے بغیر بند کردیا جائے لہٰذا اُسی بارگاہ میں دوبارہ سوال کیا گیا تو سائل اپنی مراد کو پاگئے ۔کیونکہ
حکمِ خداوندی ہے کہ
مدت سے غم کے مارؤ گبھراؤ نہ اَلم سے
ؐدافعِ ہر بَلا ہیں واللہ حبیبِ اللہ
:یامحمدﷺ پکارنا
الادب المفرد،از امام بخاری، باب تعظیم،صفحہ281
عبدالرحمٰن بن سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ ابنِ عمرؓ کا پاؤں سُن ہوگیا تو ایک شخص نے اُن سے عرض کیا کہ جو ہستی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اُس کا نام لیجئے، اُنھوں نے پکارا،یامحمدﷺ۔
یہ واقعہ سرکارِ دوعالمﷺکے ظاہری وصال کے بعدپیش آیا جسمیں حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے یامحمدﷺ پکارا جس کے باعث اُن کا پاؤں ٹھیک ہوگیا۔
دِل سے کبھی پکارو مُشکل کُشائی ہوگی
ؐ حاضر وہ جابجا ہیں واللہ حبیبِ اللہ
:رسول اللہﷺ کے جامہ کا واسطہ
حضرت بابا فرید ؒ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ بصرہ میں شدید قحط پڑ گیا، لوگوں نے اکھٹے ہوکر حضرت خواجہ حسنؓ بصری
کی بارگاہ میں بارش کیلئے دُعا کرنے کی درخواست کی کہ آپ اللہ تعالیٰ سے بارش کیلئے دُعا کریں اللہ تعالیٰ آپ کی دعا ضرور قبول فرمائے گااور ہمیں بارانِ رحمت سے فیض یاب فرمائے گا،لوگوں کے متواتر اصرار سے مجبور ہوکر حضرت حسنؓ بصری نے فرمایا کہ کل تم مسجد میں اکٹھے ہوجانا ...میں وہاں پر بارش کیلئے دعا کروں گا،لہٰذا دوسرے روز حضرت حسنؓ بصری نمازِ جمعہ سے فارغ ہوکرمنبر پر جلوہ افروز ہوئے اور جبہ و دستار بغل سے نکال کر سامنے رکھا اور بارش کی دعا مانگتے ہوئے عرض کیا،یارب العالمین!اس جامہ مبارک کے صدقے جس میں تیرے محبوبﷺکے دست مبارک لگے ہوئے ہیں...بارانِ رحمت نازل فرمادے،ابھی دعا مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ ایسا بارش کا سلسلہ شروع ہوا جو سات شب وروز تک مسلسل جاری رہا۔(اسرارالاولیاء
تو نے ہی عیبیوں کی رکھ لی ہے شرم شاہا
ؐ پردہ بنا ہوا ہے دامانِ شاہِ عربی
میرے دوستو!بلاشبہ آج بھی رحمتِ عالمینﷺکا فیضانِ رحمت جاری وساری ہے ، لیکن اپنے اپنے نصیب کی بات ہے کہ کوئی فیضانِ رحمت احسان منا کر لوٹ رہا ہے اورکوئی انکار کرکے دنیا کی زندگی میں فائدہ حاصل کررہاہے،یقینااقرار کرنے والے اور انکارکرنے والے دونوں برابر نہیں ہوسکتے،انکار کرنے والے صرف دنیا کی زندگی ہی میں فائدہ حاصل کرسکتے ہیں اور اقرار کرنے والے دنیا وآخرت ہر جگہ فیضاب ہوں گے،جیسے آپ پچھلے صفحات پر ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ سب سے بڑی مشکل اور گرم ترین دن قیامت کا ہوگا جسمیں سوائے رحمتِ عالمینﷺکے اور کوئی پناہ گاہ نہیں ہوگی یعنی اور کوئی سائبان نہیں ہوگا، صرف رحمتِ عالمینﷺکا سائبان ہی محشرکی گرمی میں تسکین عطا فرمائے گا،کیونکہ اللہ کریم کا فیصلہ ہے کہ
آخرمیں دُعاہے کہ اللہ کریم رحمتِ عالمینﷺکے تصدق اس پیغامِ حق پر عمل کرنے کی اور اس پیغامِ حق کو آگے پھیلاکر دوسرے مسلمان بھائیوں کی بھلائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
امین امین امین
ﷺﷺﷺ
No comments:
Post a Comment