Mymenu

Pages

Hazir-o-Nazir

حاظروناظر - شاھدًا رسول اللہﷺ 

مخفی خدائی مخزن بٹتا ہے تیرے صدقے
محور ہے ذات تیری سلطان شاہِ عربیﷺ
درسِ توحید کیا ہے تیرا عشق جو نہ ہو تو
دینِ خدا کی اوّل پہچان شاہِ عربیﷺ
الفت تیری سے روشن قُربِ خدا کی راہیں
تیرا شوق عشقِ اکمل ایمان شاہِ عربیﷺ

 !معزز سامعین محترم
اللہ کریم اپنے حبیبِ مکرم ﷺکے طفیل ہمیشہ صراطِ مستقیم پر قائم رکھے جوکہ انعام یافتہ بندوں کا راستہ ہے اور انعام یافتہ بندوں کے فیض بخش آستانوں اور محفلوں سے عشقِ خدا ورسول ﷺکے فیوض وبرکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے رکھے۔۔۔اور جن لوگوں پر غضبِ خداوندی نازل ہوا ہے اُن کے شر سے اپنی حفاظت میں رکھے ۔ امین۔
میرے دوستو!آج جو کلامِ الہیٰ آپ کے سامنے تلاوت کرنے کا شرف حاصل کیا ہے اس میں اللہ کریم نے اپنے حبیبِ مکرمﷺکے ایسے اوصاف بیان فرمائے ہیں جن کو سطحی انداز سے بیان کرکے فیوض وبرکات تو حاصل کیے جاسکتے ہیں مگر اس کی گہرائیوں کو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہی بہتر جانتی ہے ، لہٰذا فرمانِ خداوندی ہے کہ

’’بے شک ہم نے آپ کو بھیجا حاضر وناظر اور(نیکوکاروں کو)خوشی اور(سرکشوں کو)ڈر سناتا،تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح وشام اللہ کی پاکی بولو‘‘ ... سورہ الفتح آیت۸،۹

میرے دوستو!جس ذاتِ اقدس میں کوئی شک وشبہ نہیں وہ فرمارہی ہے کہ جب میرے محبوبﷺکے اوصاف بیان کرو تو ہر قسم کے شیطانی شک مٹا کر بے شک کہہ دیا کرو اس طرح کہنے سے قوتِ ایمان کو دل ودماغ پر غلبہ حاصل ہوجائے گا اور پھر رنگِ ایمانی میں ڈھل کرمیرے حبیب ﷺکے اوصاف بیان بھی کرو اور اسی انداز سے سنا بھی کرو،
آیتِ مقدسہ میں جو حضورﷺ کا پہلا وصف بیان کیا جارہا ہے وہ ہے شاھدًا یعنی ہم نے اپنے محبوبﷺکو گواہ یعنی حاضر وناضر بنا کر بھیجا۔۔۔کیونکہ گواہ ہوتا ہی وہ ہے جو سارے حالات کوسنتا،دیکھتا اور جانتا ہو،اسی لیے رب تعالیٰ نے آیت کے شروع ہی میں فرما دیا ہے کہ میں نے اپنا ایسا شاھدمحبوب بھیجا ہے جسمیں کوئی شک ہی نہیں۔۔۔ اب جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں ان کو یہ ذکر سن کرخوشی حاصل ہوگی اور شک کرنے والے پریشان وخوف زدہ ہوں گے اس حوالے سے بھی آیت کا اگلا حصہ سمجھا جاسکتا ہے یعنی بے شک میرا محبوبﷺایسا حاضر و ناظر ہے جو نیک لوگوں کو خوشیاں عطا کرتا ہے اور سرکشوں کو ڈر سناتا ہے، اب ظاہری اور فطری تقاضا بھی یہی ہے کہ جن کو خوشی ہوگی وہ حضورﷺکی ذات کے ساتھ منسوب ہر خوشی کو خوب منائیں گے اور حضورﷺکی ذات کا ہر لحاظ سے آدب واحترام کریں گے۔۔۔ جیسا کہ آیت کے اگلے حصہ میں رب تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میرے رسول کی تعظیم وتوقیر کرو،اب اس حکم پر عمل کرنے والوں ہی کو اس سے اگلا کام فائدہ دے گا یعنی صبح وشام رب کی پاکی بیان کرو،مطلب یہ ہوا کہ مکمل غلامیِ رسالت میں ڈھل کر رب تعالیٰ کی پاکی بیان کرو ۔۔۔اس طرح سے کی گئی عبادت کبھی رد نہیں کی جاتی بلکہ وہ قبولیت کے مقام پر فائز ہوتی ہے۔
آیتِ مبارکہ کے پہلے حصے سے معلوم ہوا کہ حضورﷺگواہ بنا کر بھیجے گئے ہیں یعنی مخلوقِ خدا کے سامنے وہ رب تعالیٰ کے گواہ ہیں اور رب تعالیٰ کے حضور مخلوقِ خدا کے گواہ ہے اور گواہ کی گواہی تبھی معتبر ہوتی ہے جبکہ وہ متعلقہ واقعات سے باخبر ہو۔۔۔بے خبری کی صورت میں اس کی گواہی دنیا کی بھی کسی عدالت میں قابلِ قبول نہیں ہوسکتی، لیکن حضورﷺکی گواہی تو ہر لحاظ سے جداگانہ ہے وہ مخلوق کے بھی گواہ ہیں اور خالق کے بھی گواہ ہیں لہٰذا وہ مخلوق کے حالات سے بھی باخبر ہیں اور خالق کی ذات سے بھی باخبر ہیں بلکہ خالق کی خبریں سنانے والے ہیں، اسی لیے وہ مومنین کے حق میں خوش خبریاں سناتے ہیں اور شک کرنے والے کافروں اور منافقوں کو ڈر سناتے ہیں ۔
حاضرینِ محترم!حضورﷺنے اپنی حیاتِ طیبہ کے آخری سال میں باقاعدہ صحابہ کبارؓ کے ساتھ شہدائے اُحد پر خطاب کرتے ہوئے بھی فرمایا کہ میں تمھارا گواہ ہوں چنانچہ اس حدیثِ مبارکہ کو مکمل حوالہ جات کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں۔

 :شہدائے اُحد پر جلوہ گری


بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر1257صفحہ نمبر546
بخاری شریف جلد نمبر2حدیث نمبر805صفحہ نمبر374
بخاری شریف جلد نمبر2حدیث نمبر1213صفحہ نمبر555
بخاری شریف جلد نمبر2حدیث نمبر1254صفحہ نمبر572
بخاری شریف جلد نمبر3حدیث نمبر1347صفحہ نمبر526

حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز نبی کریمﷺشہدائے اُحد پر نماز پڑھنے کیلئے تشریف لے گئے جیسے میت پر نماز پڑھی جاتی ہے پھر منبر پر جلوہ افروز ہوکر فرمایا،بے شک میں تمھارا سہارا اور تم پر گواہ ہوں اور بے شک خدا کی قسم،میں اپنے حوض کو اب بھی دیکھ رہاہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کُنجیاں عطا فرمادی گئی ہیںیا زمین کی کنجیاں اور بے شک خدا کی قسم مجھے تمھارے متعلق ڈر نہیں ہے کہ میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم دنیا کی محبت میں نہ پھنس جاؤ۔
معلوم ہواکہ حضورﷺ صرف گواہ ہی نہیں بلکہ ایمان والوں کا دنیا وآخرت میں سہارا بھی ہیں یہی وجہ ہے کہ قبر میں اُن کی پہچان سے ہی بخشش ہے اور اُن کو نہ پہچاننے سے عذاب ہے۔۔۔کیونکہ وہ مومنین کی حالتِ ایمانی کے گواہ ہیں اور بے ایمانوں کی بے ایمانی کے بھی گواہ ہیں اسی لیے رب تعالیٰ نے ان کی پہچان ہی پر ثواب و عذاب کا فیصلہ چھوڑ رکھا ہے ۔

 !میرے دوستو

حضورﷺسے شدید محبت کے بغیر نہ قبر میں پہچان ہوگی اور نہ ہی کوئی نجات کی صورت بن سکے گی،اسی لیے قبر میں صرف ایمان والا ہی حضورﷺ کو پہچان کر گواہی دے گا کہ یہ اللہ کے رسولﷺہیں اور حضورﷺ میدانِ حشر میں پہچان کرنے والے کے ایمان کی گواہی دیں گے ،جس سے اُسکی بخشش ہوگی، اور یہ بخشش ایمان والوں کے حق میں خوشی اور بے ایمان کے حق میں ڈر ہی تو ہے، صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ قبر وحشر میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔


پہچان لو ابھی سے صورت نجات کی ہے
یہ عاشقانہ منظر سرِعام آرہا ہے
مجھ سے سوال تیرا تُجھ سے سوال میرا
یعنی قبر حشر میں وُہی کام آرہا ہے

چنانچہ میں آپ کوبالترتیب قبر وحشر کے متعلق مستند احادیث سناتا ہوں لہٰذا سن کر اپنا ایمان تازہ کریں اور آگے اس فیضان کو پھیلائیں۔

  :قبر کی نجات


بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر1251صفحہ نمبر544
بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر1284صفحہ نمبر557

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا،بندے کو جب اُس کی قبرمیں رکھا جاتا ہے اور اُس کے ساتھی لوٹتے ہیں اور وہ اُن کے جوتوں کی آہٹ سُن رہا ہوتا ہے تو اُس کے پاس دوفرشتے آتے ہیں اور اُسے بٹھا کرکہتے ہیں،تو اس ہستی کے متعلق کیا کہا کرتا تھایعنی محمد مصطفیﷺکے متعلق؟اگر مومن ہوتو کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں.اُس سے کہا جائے گاکہ جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے تجھے جنت میں ٹھکانا دے دیا ہے پس دونوں کو دیکھتا ہے.قتادہؓ نے ہم سے ذکر کیا کہ اُس کی قبر وسیع کردی جاتی ہے. پھر حدیثِ انسؓ کی طرف لوٹتے ہوئے فرمایا ،اگرمنافق یاکافر ہوتو اُس سے کہا جاتاہے کہ تو اس ہستی کے متعلق کیا کہا کرتا تھا؟وہ کہتا ہے مجھے تو معلوم نہیں، میں وہی کہتا جولوگ کہتے تھے.اُس سے کہا جاتا ہے،تونے نہ جانا اور نہ سمجھا. اُسے لوہے کے گُرز سے مارا جاتا ہے تو وہ چیختا چلاتا ہے جس کو سب قریب والے سُنتے ہیں سوائے جنوں اور انسانوں کے۔

  :انوارِ حدیث

اس حدیثِ نبویﷺسے معلوم ہوا کہ ہر مردہ سُنتا ہے جب ہر مردہ سن سکتا ہے توپھر اللہ تعالیٰ کے نبی اور ولی کیسے نہیں سن سکتے؟ یقیناًوہ بھی سُنتے ہیں اس بات کا انکار جہالت کی دلیل ہے اور اگلی بات کہ ہر قبر میں حضورپاکﷺکی تشریف آوری ہوتی ہے۔۔۔اور ہر قبر میں وہی تشریف لاسکتے ہیں جو ہر جگہ حاضر وناظر ہیں اور بخشش کا سارا دارومدار اُن کی پہچان ہی پر موقوف ہے اور حضورﷺکی پہچان صرف کامل ایمان والا ہی کرسکے گا.اور یہ بھی معلوم ہواکہ جو ہر قبر میں تشریف لاتے ہیں وہ ہمہ وقت موجود ہیں یعنی حاضر وناظر ہیں. قابلِ غور بات ہے جب انسان یہ دنیا کی زندگی گزار کر مقامِ قبر میں پہنچتا ہے تو اس کی نجات صرف حضورﷺ کی ہی پہچان سے ہوگی.اور پہچان صرف وہی کرپائے گا جس نے اس دنیا میں حضورﷺسے بنا کررکھی ہوئی ہے.اسی لیے جب فرشتے مومن کا صحیح جواب سُنتے ہیں تو کہتے ہیں دیکھ پہلے تمھارا ٹھکانہ جہنم میں تھا۔۔۔ صرف اس کے بدلے میں یعنی پہچانِ مصطفیﷺکے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے تمھارا وہ ٹھکانہ بدل کر تمھیں جنت میں عطا فرمادیا ہے،مومن کی یہ پہچان اُس کی طرف سے گواہی ہے جب وہ یہ گواہی دے گا تو پھر اُس پر جنت کے دروازے کھول دئیے جائیں گے۔


پہچان سے حضورؐ کی سوال ہوگئے ختم
آپ تک ہی منکر و نکیر کا ہے سلسلہ

میرے بزرگوں ودوستو!اب ذرا میدانِ حشر کے حالات مستند حدیث سے سماعت فرمائیں۔

 :تمام بنی آدم کے سلطان


بخاری شریف جلد2حدیث نمبر566صفحہ265
بخاری شریف جلد2حدیث نمبر1823صفحہ858
بخاری شریف جلد2حدیث نمبر593صفحہ نمبر735
بخاری شریف جلد3حدیث نمبر1482صفحہ573

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں گوشت(بھنا ہوا) لایا گیا چنانچہ ایک دستی اُٹھا کر آپ کیلئے پیش کی گئی کیونکہ دستی کا گوشت آپ کو بہت پسند تھا،پس آپ نے اس میں سے تناول فرمایا اور اسکے بعد ارشاد ہوا کہ قیامت کے روز سب لوگوں کا سردار میں ہوں،کیا تم اسکی وجہ جانتے ہو؟سنو! اگلے پچھلے سارے انسانوں کو ایک ہی میدان میں جمع کرلیا جائے گا،جو ایسا ہوگا کہ پکارنے والے کی آواز سُن سکیں گے اور سب کو دیکھ سکیں گے اورسورج لوگوں کے اتنا قریب آجائے گا کہ گرمی کی شدت سے تڑپنے لگیں گے اور وہ ناقابلِ برداشت ہوجائے گی تو لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ کیا تم اپنی حالت نہیں دیکھتے؟پھر تم ایسی ہستی کو تلاش کیوں نہیں کرتے جو تمھارے رب کے پاس تمھاری شفاعت کرے؟چنانچہ لوگ دوسروں سے کہیں گے کہ تمھیں حضرت آدمؑ کی خدمت میں جانا چاہیے،پس وہ حضرت آدمؑ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کریں گے کہ آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں،آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دستِ خاص سے بنایا ہے آپ کے اندر اس نے اپنی جانب کی روح پھونکی تھی اور اس نے فرشتوں کو حکم فرمایا تو انہوں نے آپ کیلئے سجدہ کیا تھا،لہٰذا اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیے،کیا آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال کو پہنچ گئے ہیں؟ حضرت آدمؑ فرمائیں گے کہ آج میرے رب نے غضب کا ایسا اظہار فرمایا ہے کہ ایسا نہ اس سے پہلے کبھی فرمایا اور نہ اس کے بعد کبھی ایسا فرمائے گا،تم کسی دوسرے کے پاس جاؤ،تم حضرت نوحؑ کے پاس چلے جاؤ، پس وہ حضرت نوحؑ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کریں گے،اے حضرت نوحؑ ! آپ زمین والوں کی طرف سب سے پہلے آنے والے رسول تھے،اللہ تعالیٰ نے آپ کو عبداً شکورا کا نام دیا تھا،آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیے،آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ گئے ہیں؟وہ ان سے فرمائیں گے کہ آج میرے رب عزوجل نے غضب کا وہ اظہار فرمایا ہے کہ نہ کبھی اس سے پہلے ایسا اظہار فرمایا اور نہ کبھی اس کے بعد ایسا اظہار فرمائے گا، تم کسی دوسرے کے پاس جاؤ،تم حضرت ابراہیمؑ کے پاس چلے جاؤ،پس لوگ حضرت ابراہیمؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے،اے حضرت ابراہیمؑ !آپ اللہ تعالیٰ کے نبی اور زمین والوں میں اس کے خلیل ہیں،آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیں،کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں؟وہ ان لوگوں سے فرمائیں گے کہ بیشک میرے رب نے غضب کا آج ایسا اظہار فرمایا ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی ایسا کیا اور نہ کبھی اس کے بعد ایسا کرے گا،تم کسی دوسرے کے پاس جاؤ،تم حضرت موسیٰؑ کے پاس چلے جاؤ، پس لوگ حضرت موسیٰؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے،اے حضرت موسیٰؑ ! آپ اللہ کے رسول ہیں،اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسالت اور ہمکلامی کے ساتھ دوسرے انبیاء کرام پر فضیلت دی تھی،آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیں،کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں؟وہ فرمائیں گے کہ میرے رب نے آج غضب کا ایسا اظہار فرمایا کہ نہ اس سے پہلے کبھی ایسا کیا اور نہ بعد میں کبھی ایسا کرے گا،تم کسی اور کے پاس جاؤ، تم حضرت عیسیٰؑ کے پاس چلے جاؤ،چنانچہ لوگ حضرت عیسیٰؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے،اے حضرت عیسیٰؑ !آپ اللہ کے رسول اور اُس کا ایک کلمہ ہیں جو اُس نے حضرت مریمؑ کی جانب القا فرمایا ہے نیز آپ اُس کی جانب کی روح ہیں اور آپ نے پنگوڑے کے اندر لوگوں سے باتیں کی تھیں لہٰذا آپ ہماری شفاعت فرمائیں،کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کس حال کو پہنچ گئے ہیں؟ حضرت عیسیٰؑ فرمائیں گے کہ آج میرے رب نے غضب کا وہ اظہار فرمایا ہے کہ نہ اس سے پہلے ایسا غضب فرمایا اور نہ اسکے بعد ایسا فرمائے گا ،تم کسی دوسرے کے پاس جاؤ،ارے تم محمد مصطفیﷺ کے حضور جاؤ،چنانچہ لوگ محمد مصطفیﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوں گے،اے محمد مصطفیﷺ!آپ اللہ کے رسول اور انبیائے کرام میں سب سے آخری ہیں،اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف فرما دئیے تھے لہٰذا اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیے،کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ ہم کس حال کو پہنچ گئے ہیں؟ پس میں(یعنی حضرت محمد مصطفیﷺ)اس کام کیلئے چل پڑوں گا اور عرشِ عظیم کے نیچے آکر اپنے رب عزوجل کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا،پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر ایسی حمدیں اور حسنِ ثناء ظاہر فرمائے گا جو مجھ سے پہلے کسی پر ظاہر نہیں فرمائی ہونگی،پھر مجھ سے فرمایا جائے گا،اے محمدﷺ ! اپنا سر اٹھاؤ،مانگو کہ تمھیں دیا جائے گا، شفاعت کرو کہ تمھاری شفاعت قبول فرمائی جائے گی،پس میں اپنا سر اٹھا کر عرض کرونگااے رب!میری امت، پس فرمایا جائیگا کہ اے محمدﷺ!اپنی امت کے اُن   لوگوں کو جن کا ہم نے حساب نہیں لینا ’’باب الایمن‘‘سے جنت میں داخل کردو

اسی جلد کی ایک روایت جوکہ حضرت انسؓ سے مروی ہے کے آخری الفاظ اس طرح ہیں’’پھر میں(یعنی محمدمصطفیﷺ)اپنا سر اٹھاؤنگااور اللہ تعالیٰ کی ایسی حمدیں بیان کروں گا جنکی مجھے تعلیم فرمائی جائیگی،پھر شفاعت کرونگا،جسکی میرے لئے ایک حد مقرر فرما دی جائیگی تو میں ایک گروہ کو جنت میں داخل کرکے واپس لوٹ آؤنگا،پھر میں اپنے رب کو دیکھ کر حسبِ سابق کروں گا،حکم ہوگا شفاعت کرو اور میرے لیے ایک حد مقرر فرما دی جائیگی تو میں دوسرے گروہ کو جنت میں داخل کرکے واپس لوٹ آؤنگا،پھر تیسری دفعہ اسی طرح واپس آؤنگا،پھر چوتھی دفعہ اسی طرح واپس لوٹوں گا


دامن میں جن کو تو نے عمرانؔ لے لیا ہے ،دُنیا جہاں کے پاپی رحمت میں دُھل گئے ہیں

 :فیضانِ حدیث

اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ بروزِ قیامت تمام بنی آدم کے سرداروسلطان ہمارے آقا ومولاحضرت محمد مصطفیﷺہیں،کچھ شک کرنے والے لوگ اس دنیا میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی نبی یا ولی سے مدد مانگنی جائز نہیں بلکہ ایسا کرنا شرک ہے،مذکورہ مستند فرموداتِ نبویﷺ بتا رہے ہیں کہ جس روز قیامت برپا ہوگی اور خدا تعالیٰ خود سامنے موجود ہوں گے اُس وقت بھی لوگ براہ راست اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرنے کی ہرگز جرات نہ کرسکیں گے بلکہ سبھی وسیلہ تلاش کریں گے بل آخر بارگاہِ مصطفیﷺسے مشکل کشائی اور حاجت روائی ہوگی،یعنی حضورﷺ کے احسان اور عطا کے بغیر کام نہیں بنے گا۔یعنی ہم دونوں جہانوں میں حضور نبی کریمﷺ کے سائل ہیں اور اُن کی عطاؤں کے محتاج ہیں۔

ایس جگ توں لے کے حشر توڑی بنی آدمؑ دے ہین سردار آقاﷺ
اُمتی اُمتی پکار دے پئے ہوسن پالنہار تے ذی وقار آقاﷺ
نفسی نفسی چتار دے لوک سارے تیرے کول آؤسن سائلاں ہار آقاﷺ
دن حشر دے نشر عمرانؔ ہوسی مددگار نے سِربازار آقاﷺ

صرف اپنی امت ہی کے حضورﷺگواہ نہیں ہیں بلکہ اس سے پہلی امتوں کے متعلق بھی حضورﷺہی کی گواہی معتبر ہوگی لہٰذا اس کے متعلق ایک حدیثِ پاک ملاظہ فرمائیں۔


اللہ کا احساں یہ ہم پہ بڑا ہے ،کہ اُمت میں تیری جو پیدا کیا ہے

  :سابقہ اُمتوں کی گواہی
بخاری شریف جلد2 حدیث نمبر565صفحہ265
حضرت ابوسعیدؓ سے روایت کہ رسول اللہﷺنے فرمایا،جب حضرت نوحؑ اپنی امت کولے کربارگاہِ خداوندی میں حاضر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ دریافت فرمائیں گے کہ کیا تم نے میرے احکامات پہنچا دئیے تھے؟جواب دیں گے،ہاں میرے رب،پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا،کیا تمھارے تک میرے احکام پہنچائے گئے؟وہ جواب دیں گے کہ نہیں،بلکہ ہمارے پاس تو کوئی نبی آیا ہی نہیں تھا،اللہ تعالیٰ حضرت نوحؑ سے فرمائے گا،کیا تمھاری گواہی دینے والا کوئی ہے؟عرض کریں گے،حضرت محمدﷺاور ان کی امت گواہ ہے،پس یہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے احکام پہنچا دئیے تھے۔
اس حدیث پاک سے واضح ہے کہ حضورﷺ صرف اپنی امت کے گواہ نہیں بلکہ سابقہ امتوں کی بھی گواہی دینے والے ہیں،اور گواہ وہی ہوتا ہے جو موقع پر موجود ہو اور جو موجود نہ ہو اُس کی گواہی تسلیم ہی نہیں کی جاتی اور نہ ہی اُسے گواہ مانا جاسکتا ہے ،اور موجود کے متعلق حاضر وناظر کی بحث کرنا بالکل خلافِ فرموداتِ اللہ و رسولﷺہے۔کیونکہ 

بے شک ہم نے آپ کو بھیجا حاضر وناظر اور(نیکوکاروں کو)خوشی اور(سرکشوں کو)ڈر سناتا.‘‘ ... سورہ الفتح آیت۸ ’’

:شاہی مسجد کا خطیب

حکیم ثنائیؒ کے زمانہ میں شاہی مسجدغزنی کے خطیب وفات پاگئے تو دستور کے مطابق اُن کے بیٹے کو دستاربندی کردی گئی مگر اُن کا بیٹا بالکل نااہل اور لاعلم تھا۔۔۔ اُسے کچھ بھی نہیں آتا تھا۔۔۔ کچھ عرصہ تو خاموشی سے کام چلتا رہا مگرکچھ مدت کے بعد لوگوں نے بادشاہ سے شکایات شروع کردیں کہ شاہی مسجد کا خطیب مسجد میں بالکل نظر نہیں آتا بلکہ اُس کی جگہ مسجد کا نائب ہی جماعت وغیرہ کراتا ہے اور جمعہ کے روز بھی اُس کی جگہ کوئی اور شخص ہی خطاب کرتا ہے لہٰذا اُس کو اس عہدہ سے علیحدہ کیا جائے اور اس کی تنخواہ بھی بند کردی جائے ۔۔۔شروع شروع میں تو بادشاہ نے پرانے خطیب کی وفاداریوں کی بدولت ٹال مٹول سے کام لیا مگر جب لوگوں کی شکایات بڑھ گئیں تو بادشاہ نے اُس کی طرف قاصد روانہ کیا کہ اُسے پیغام دے دو کہ اس آنے والے جمعہ کو تم خطاب کرو گے اور ہم خود تمھارا خطاب سننے کیلئے شاہی مسجد میں آئیں گے ، جب یہ پیغام موجودہ خطیب صاحب تک پہنچا تو ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی ۔۔۔سخت پریشان ہوا کہ اب کیا کروں مجھے تو کچھ بھی نہیں آتا۔۔۔میں کیسے خطاب کرسکتا ہوں، اسی پریشانی کی حالت میں باوضو ہوکر درود شریف پڑھنے لگا اور حضورﷺکے آگے گریہ زاری کے ساتھ فریاد کرنے لگا ۔۔۔ابھی کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ اُس کی آنکھ لگ گئی اور خواب میں حضورﷺکی زیارت نصیب ہوئی ،سرکارﷺنے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ اپنا منہ کھولو ،اُس نے اپنا منہ کھولا۔۔۔ حضورﷺنے اس کے منہ میں اپنا لعابِ دہن مبارک ڈالا ۔۔۔اور فرمایا کہ اب جاؤ اور اس جمعہ کو خطاب کرنا لہٰذا جب خطیب صاحب کی آنکھ کھلی تو انھوں نے یوں محسوس کیا کہ جیسے تمام علوم اُن کے سینہ میں جوش مارہے ہیں ،جمعہ کا روز آیا تو خطیب صاحب ممبر پر جلوہ افروز ہوئے اور علم کے وہ دروازے کھولے کہ سننے والے حیرت میں کھو گئے ۔۔۔ جوں جوں سلسلہ ء خطاب آگے بڑھتارہا ۔۔۔ سننے والوں کی کیفیات بھی عروج پکڑتی گئیں۔۔۔یہاں تک کہ سب پر رقت طاری ہوگئی ہر شخص گریہ زاری میں مبتلا تھا کہ اسی دوران آنسو بہاتے ہوئے حکیم ثنائی ؒ مسجدمیں داخل ہوئے اور بلند آواز سے فرمایا کہ حضورﷺ کی ذات پر نبوت ختم ہے اُن کی گواہی پر گواہی ختم ہے اور اُن کے حُسن پر حُسن ختم ہے اور جس کے منہ میں حضورﷺنے لعابِ دہن ڈالا ہے اُس کے سخن پر سخن ختم ہے۔ 
(ملفوظات حضرت گیسودرازؒ )
واضح ہوا کہ اللہ کریم کی عطا سے حضورﷺ حاضروناظر بھی ہیں اورمشکلیں آسان کرنے والے مشکل کشا بھی ہیں لیکن 
صرف اس دنیا ہی میں نہیں بلکہ قبر وحشر میں بھی اپنے غلاموں کا سہارا ہیں۔کیونکہ

بے شک ہم نے آپ کو بھیجا حاضر وناظر اور(نیکوکاروں کو)خوشی اور(سرکشوں کو)ڈر سناتا.‘‘ ... سورہ الفتح آیت۸ ’’

آخرمیں دُعاہے کہ اللہ کریم اپنے محبوبﷺکے تصدق اور انعام یافتہ بندوں کے طفیل اس پیغامِ حق پر عمل کرنے کی اور اس پیغامِ حق کو آگے پھیلاکر دوسرے مسلمان بھائیوں کی بھلائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔سورہ فتح کی آیت نمبر ۹ پر انشاء اللہ تعالیٰ اگلے صفحات پرعلیحدہ موضوع کے ساتھ بحث ہوگی۔


امین امین امین


دن چڑھسی تے نالے لُک جاسی تیرا حُسن آقا جاوداں رہیسی
شاخاں پُھٹ جاسن نالے سُک جاسن تیری ہر ادا جواں رہیسی
کدی فجر ہوسی کدی عصر ہوسی تیری نعت رواں دواں رہیسی
ہر شے عمرانؔ فناہ ہوسی دم بدم جاری تیرا ناں رہیسی
ﷺﷺﷺ
لمبی عُمر محمد دے نام دی اے جپن والڑے لافناہ ہوگئے 
عشقِ محمد اے آبِ حیات چشمہ ساغر پی عُشاق بقا ہوگئے
کیتی نظر کریم نے جس اُتے سارے فرض تے حق ادا ہوگئے
مہربان عمرانؔ رحمن ہویاراضی جدوں مدینے دے شاہ ہوگئے
ﷺﷺﷺ
والفجر دے نال پئی فجر ہووے کالی رات تے زُلفاں دان کیتے
مازاغ نگاہ چن تاریاں تے صبح شام تقسیم فیضان کیتے
کہکشاں گواہ کسے راہی دی اے اہلِ نظر نے حق فرمان کیتے
مدنی ماہی دا سب عمرانؔ صدقہ پیدا رب نے دوئے جہان کیتے
ﷺﷺ

No comments:

Post a Comment

آمدو رفت