Mymenu

Pages

Ashiqon Ka Zikr

 عاشقوں کا ذکر - اہلِ ایمان اور حق بات

یرے محسن شاہِ احسن آسیوں کے آسرا ہو

جانِ جاناں جانِ عالم نورِ مطلق بخدا ہو

شہنشاہِ حُسن و خوبی منبعِ جود و کرم ہو
آفتابِ نورِ یزداں نیرِ صِدق و صفا ہو
باعثِ تکوینِ عالم اے حبیبِ لَم ےَزل؂
اِنتہائے حُسنِ فطرت تاجدارِ انبیاء ہو
آبرو تیرے ہی دم سے آب و گِل کی بن گئی
احسنُ و تقویم تم ہو عزتِ ارض و سما ہو
اوّل و آخر ظاہر و باطن تیرے جلوے میری خاطر
رحمتِ عالم شانِ عالم ابتدا ہو انتہا ہو
کِس قدر اوصاف تیرے مرحبا صَلّ عِلیٰ
تم امامِ مرسلیں ہو دِلربائے کبریا ہو
خوش خصال و خوش مثال و خوش جمالِ دلبری
مصدرِ انوارِ رحمت مظہر نورِ خدا ہو
دستگیرِ عاجزانِ بے نوا عمرانؔ تم ہو
المدد نظرِ کرم میرے سخی مشکل کشا ہو

معزز سامعینِ محترم!اللہ کریم اپنے پیارے محبوبﷺکے طفیل ہمیشہ صراطِ مستقیم پر قائم رکھے جوکہ انعام یافتہ بندوں کا راستہ ہے بلاشبہ دنیا وآخرت کی ہر کامیابی اسی راستہ پر قائم رہنے سے وابستہ ہے۔
میرے دوستو آج جو آیاتِ مقدسہ آپ کے سامنے تلاوت کرنے کا شرف حاصل کیا ہے اسمیں اللہ کریم حق بات کی نصیحت کرنے کی تاکید فرما رہے ہیںیعنی



ترجمہ! ’’ ایک دوسرے کو حق کی تاکیدکی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی‘‘ (سورہ العصر،آیت نمبر۳)


یہ سورہ والعصر کی آخری دو آیات ہیں جس سورہ کے شروع میں اللہ کریم نے زمانہ عصریعنی زمانہء محبوبﷺ کی قسم اُٹھا کرفرما یاہے کہ انسان خسارے میں ہے مگر وہ نہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی،اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضا بریلویؒ نے والعصر کا ترجمہ کیا ہے کہ ’’زمانہء محبوبﷺکی قسم‘‘ کیونکہ قیامت تک کا سارا زمانہ حضورﷺکی نبوت کا ہے آپ کے بعد کوئی اور نبی نہیں کیونکہ حضورﷺ سب سے آخر میں تشریف لائے اس لیے والعصر سے مراد حضورﷺ ہی کا زمانہ ہے ۔

جیسے ایک دُرویش مولانا ختم شریف پڑھ رہے تھے تو کسی نے اُن سے کہا کہ یہ بدعت ہے،مولانا نے فرمایا،بدعت کی تعریف کرو،کہنے لگا جو کام حضورﷺکے زمانہ میں نہ ہو اور بعد میں ایجاد کرلیا جائے وہ بدعت ہے،مولانا نے فرمایا کہ یہ زمانہ تمھارے باپ کا ہے یہ زمانہ بھی تو حضورﷺہی کا ہے۔

بلاشبہ یہ زمانہ حضورﷺہی کا زمانہ ہے،اور حضورﷺکے زمانے والو ں ہی سے رب تعالیٰ خطاب فرما رہے ہیں کہ وہ انسان خسارے میں ہیں جو ایمان نہیں لائے،جیسا کہ ایک دفعہ حضورﷺاور حضرت عمرِ فاروقؓ اکھٹے جا رہے تھے تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا،یارسول اللہﷺ آپ مجھے میری جان کے علاوہ ہرچیز سے عزیز ہیں،حضورﷺنے فرمایا،نہیں عمرؓ !تمھارا اُس وقت تک ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک مجھے اپنی جان سے بڑھ کر عزیز نہ جانو،یہ سُن کر حضرت عمرؓ نے عرض کیا،یارسول اللہﷺ!اب آپ مجھے میری جان سے بھی عزیز ہیں، حضورﷺنے فرمایا کہ اب بات بن گئی یعنی اب تمھارا ایمان کامل ہوگیا،اسی طرح بخاری کی حدیث نمبر ۱۳ اور۱۴ میں نبی کریمﷺکا فرمان موجود ہے،کہ

بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر13صفحہ نمبر 112

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا،قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اُسے اُس کے والد اور اُس کی اولاد سے عزیز ترنہ ہوجاؤں۔

بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر 14صفحہ نمبر 112

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا،تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا ۔۔۔یہاں تک کہ میں اُسے اُس کے والد،اُس کی اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب نہ ہوجاؤں۔
ان احادیثِ مبارکہ کو سامنے رکھ کر مفہوم یوں بنے گا کہ زمانہء محبوب کی قسم وہی انسان خسارے میں ہیں جو میرے محبوبﷺکو ہر چیز سے بڑھ کر عزیز نہیں رکھتے حتی کہ اپنی جان سے بھی،اگر ہرچیز سے بڑھ کر میرے محبوب ﷺسے محبت رکھتے ہیں تو خسارہ والے نہیں بلکہ ایمان والے ہیں اور ایمان والوں کو ہی نیک اعمال کا فائدہ ہوگا،جیسا کہ پچھلے صفحات پر بیان کیا گیا ہے کہ بہترین انسان وہی ہیں جو حضورﷺکے وفادار غلام ہیں اور حضورﷺسے وفاداری شدید محبت کے بغیر ممکن نہیں،اور جب محبت جان سے بڑھ کر ہو جاتی ہے تو اُس کو پھر محبت نہیں کہتے بلکہ عشق کہتے ہیں،عشق کا تعلق وفاداری سے ہے اور حضورﷺسے وفاداری کا تعلق ہی حق تعالیٰ کی دوستی سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کاسورہ آلعمران، آیت نمبر ۳۱
 میں ارشاد ہے کہ
ترجمہ!’’اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگرتم اللّٰہ کو دوست رکھتے ہو تو میری وفاداری کرو، اللّٰہ تمھیں
 ‘‘دوست رکھے گا اور تمھارے گناہ بخش دے گا اور اللّٰہ بخشنے والا مہربان ہے

معلوم ہوا کہ حضورﷺکی وفاداری کے بغیر اللہ تعالیٰ کی دوستی حاصل نہیں ہوسکتی جب حق تعالیٰ کی دوستی ہی حاصل نہ ہو تو کوئی بھی عمل اچھا کیسے ہوسکتا ہے؟اور کوئی بھی حق بات فائدہ کیسے دے سکتی ہے؟ اسی لیے فرمایا۔


ترجمہ! ’’ ایک دوسرے کو حق کی تاکیدکی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی‘‘ (سورہ العصر،آیت نمبر۳)



حق کی دوستی حاصل کرنے کی تاکید اور حق کے راستہ پر صبر کرنا،انسان کی کامیابی کا ذریعہ ہے،اور حق بات وہی ہے جو حق تعالیٰ کی دوستی تک پہنچا دے اور اُس راستہ میں آنے والی ہر مشکل کو برداشت کرنا اور اپنے آپ کو حق کے ساتھ روکے رکھنا صبر ہے،حق کی دوستی کا واحد ذریعہ حضورﷺکی وفاداری ہے،اور حضورﷺ کی وفاداری بیان کردہ احادیثِ مبارکہ سے ممکن ہے،صرف نماز،روزہ کثرتِ تلاوتِ قرآن سے کوئی حق تک رسائی حاصل کرسکتا تو حضورﷺ ذوالخویصرا تمیمی کے متعلق نہ فرماتے(جس نے حضورﷺکی بے ادبی کی تھی)کہ یہ دین سے خارج ہے،جب حق کے دین سے ہی خارج ہے تو اُس کا کوئی عمل یا نصیحت کیسے نفع بخش ہوسکتی ہے؟اللہ کریم نے تو واضح فرما دیا ہے کہ انسان خسارہ میں ہے صرف وہ نہیں جو ایمان لائے ، اچھے عمل کیے اور حق کی تاکید وصبر کیا۔


ذرا توجہ کے ساتھ سورہ مبارکہ کی ترتیب پر غور فرمائیں کہ اللہ کریم زمانہء محبوب کی قسم اٹھا کر فرما رہے ہیں کہ انسان خسارہ میں ہے مگر وہ نہیں جو ایمان لائے،یعنی ایمان والوں کے بغیر سبھی خسارے میں ہیں اور ایمان لانے کے بعد اچھے اعمال کا ذکر فرمایا،مطلب واضح ہے کہ اچھے اعمال اُسے نفع دیں گے جو صاحبِ ایمان ہوگا وگرنہ کوئی عمل بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہو گا۔

معلوم ہوا کہ سب سے پہلے حق بات جس کی نصیحت ضروری ہے وہ دولتِ ایمان کا حصول ہے جس کے لیے ہمارے آقاﷺنے باقاعدہ دن مقرر فرما کرنصیحت کی، مختلف جگہوں پر جاکرتبلیغ فرمائی اور سرکشوں کے خلاف لشکرکشی بھی فرمائی۔جیسے

بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر68صفحہ نمبر136

حضرت ابنِ مسعودؓ نے فرمایا کہ نبی کریمﷺنے ہمیں نصیحت کرنے کیلئے دن مقرر فرما رکھے تھے اور اتنا ناپسند فرماتے جس سے ہمارے اُکتا جانے کا خدشہ ہوتا۔
معلوم ہوا کہ محفل کیلئے کوئی دن مقرر کرنا کوئی نئی بات (بدعت)نہیں ہے بلکہ رسول اللہﷺکی سنت ہے چاہے وہ گیارہویں شریف کا دن ہو یا کوئی اور،اگر اُس دن کوایمان کے حصول کیلئے اور ایمان والوں کو اچھے کام کی نصیحت کی جائے تو عین سنتِ نبویﷺادا ہوگی،یہی رب تعالیٰ کا بھی حکم ہے۔


ترجمہ! ’’ ایک دوسرے کو حق کی تاکیدکی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی‘‘ (سورہ العصر،آیت نمبر۳)


معلوم ہوا کہ سب سے ضروری اور اہم نصیحت ایمان کی نصیحت ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی بھی عمل اچھا نہیں ہوسکتا اور کوئی بھی صبر کام نہیں آسکتا،لہٰذا یہ تبلیغ ہروقت کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کے ساتھ ہی اعمال کا تعلق ہے ،کیونکہ اعمال کی بنیاد ہی ایمان ہے ،اور ایمان کیلئے حق بات کی ہمیشہ تلقین کرنا اللہ تعالیٰ ورسولﷺکا فرمان ہے۔بقول اقبالؒ 


قوتِ عشق سے ہرپست کو بالا کردے

دہر میں اسمِ محمد؂ سے اُجالا کردے

اسی لیے حضورﷺکے عاشقوں نے گھر مال جان عزت وطن تو چھوڑنا گوارا کیا مگرکسی نے آزماشوں سے تنگ آکر دامنِ مصطفیﷺنہیں چھوڑا،بلکہ ہر حالت میں حضورﷺکے وفادار رہے اسی وفاداری کے باعث اُن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی دوستی سے فیض یاب کیا۔
جنہوں نے کبھی کفار کے لشکروں کی کثیر تعداد سے خوف نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اپنے آقاﷺکا اشارہ مدِنظر رکھا ہے اسی لیے جب اُنھیں وطن چھوڑنا پڑتا ہے تو جملہ عشاقِ مصطفیﷺدیر نہیں کرتے،جب ہزار کے مقابلہ میں ۳۱۳ کو جانا پڑتا ہے تو صرف اپنے محبوبﷺکی خوشنودی دیکھتے ہیں اورحالتِ روزہ میں بے تیغ بھی لڑنے سے پیچھے نہیں ہٹتے ،اور ہر حالت میں حضورﷺکی خوشنودی مدنظر رہتی ہے اور ناراضگی سے خوف زدہ رہتے ہیں۔

:تعظیم والوں کا طریقہ

بخاری شریف جلد2،حدیث نمبر1541،صفحہ707

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ مجھے صحابہ کرامؓ نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیجا تاکہ ان کیلئے سواریاں طلب کروں جبکہ وہ غزوہ تبوک کیلئے جارہے تھے،پس میں عرض گزار ہوا کہ اے نبی اللہﷺ!آپ کے اصحابؓ نے مجھے حضورﷺ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ ان کیلئے سواریوں کا سوال کروں، آپ نے فرمایا،خدا کی قسم!میں تمھیں کوئی سواری نہیں دوں گا،اتفاق سے اس وقت آپ ﷺ جلال کی حالت میں تھے اور اس حالت کو میں سمجھ نہ پایا تھا،میں نبی کریمﷺکے انکار فرمانے کے باعث رنج وملال کی حالت میں واپس لوٹ آیااور دوسری جانب مجھے یہ غم کھا رہا تھا کہ کہیں نبی کریمﷺمجھ سے ناراض نہ ہوجائیں،میں اپنے ساتھیوں کی جانب لوٹا اور انہیں بتا دیا جوکچھ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا،ابھی کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ میں نے حضرت بلالؓ کی آواز سُنی کہ عبداللہ بن قیسؓ،پس میں نے جواب دیاتو انہوں نے فرمایا،آپ کو رسول اللہﷺ بُلا رہے ہیں،جب میں آپ کی بارگاہِ بیکس پناہ میں حاضر ہوا تو فرمایا، یہ فلاں فلاں جوڑے یعنی چھ اونٹ لے جاؤ،آپ نے اسی وقت وہ اونٹ حضرت سعدؓ سے خریدے تھے پس انہیں لے کر اپنے ساتھیوں کی طرف جاؤ اور ان سے کہہ دیناکہ بیشک اللہ اور اس کے رسول ﷺنے تمھیں سوار ہونے کیلئے عطا فرمائے ہیں لہٰذا ان پر سوار ہوجاؤ،پس میں انہیں لے کر چلا گیا اور انہیں بتا دیا کہ یہ نبی کریم ﷺنے تمھاری سواری کیلئے عطا فرمائے ہیں۔

اس حدیثِ پاک سے کئی سبق حاصل ہوتے ہیں یعنی حضرت ابوموسیٰؓ کے سوال کرنے سے پہلے ہی حضورﷺکسی وجہ سے جلال میں تھے مگر وہ آپ کی کیفیت کو سمجھ نہ سکے اور اپنے پروگرام کے مطابق عرض کردیا ،مگر حضورﷺنے جلال کا اظہار فرمایا،جس کی وجہ سے حضرت ابوموسیٰؓ انتہائی پریشان ہوئے اور پریشانی کی وجہ حضورﷺکے غصے کا اظہار نہیں تھا بلکہ اُن کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ کہیں حضورﷺمجھ سے ناراض نہ ہوجائیں،یہی صاحبِ ایمان کی نمایاں علامت ہے کہ اُسے ہر چیز سے بڑھ کر اپنے محبوب کی خوشی اور ناراضگی کا خیال ہوتا ہے،اسی لیے حضرت ابوموسیٰؓ کوبھی حضورﷺ کی ناراضگی کا خیال پریشان کرنے لگا،جب حضورﷺنے دوبارہ اُن کو بُلا کر حاجت روائی فرمادی تو اُنھوں نے واضح الفاظ میں باقی صحابہؓ سے کہا کہ یہ تمھیں نبی اللہﷺنے عطا فرمائے ہیں۔
 :قربان ہونے کیلئے خادم موجود ہے

بخاری شریف جلد2،حدیث نمبر1334صفحہ نمبر562

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ غزوہ اُحد میں جب لوگ نبی کریمﷺکو چھوڑ کر بھاگ گئے تو حضرت ابوطلحہؓ مع ڈھال حضورﷺکے آگے سراپا ڈھال بنے ہوئے تھے،حضرت ابوطلحہؓ بڑے تیرانداز اور زور دار کمان والے تھے اس روز ان کے ہاتھوں دو یاتین کمانیں ٹوٹ گئی تھیں،جب کوئی شخص ان کے سامنے سے ترکش لے کر گزرتا تو حضورﷺاس سے فرماتے کہ انہیں ابوطلحہؓ کے سامنے ڈال دو،راوی کابیان ہے کہ جب نبی کریمﷺ سرمبارک کو اُٹھا کر کافروں کو دیکھتے تو حضرت ابوطلحہؓ عرض کرتے،میرے ماں باپ آپ پر قربان،سرمبارک کو نہ اٹھائیے،مبادا کافروں کا کوئی تیر خدا نخواستہ آلگے،حضورﷺپر قربان ہونے کیلئے اس (حضرت ابوطلحہؓ)خادم کا گلا موجود ہے۔

:دوبچوں نے ابوجہل کو قتل کیا

بخاری شریف جلد2 حدیث نمبر381صفحہ191

حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ فرماتے ہیں کہ جنگِ بدر کے دوران میں صف میں ذرا دم لینے کیلئے بیٹھ گیا تھا،اپنے دائیں بائیں دیکھا تو دوکم سِن انصاری لڑکے نظر آئے،دل میں خیال گزرا کہ میں جوانوں کے درمیان ہوتا،ان میں سے ایک لڑکا مجھ سے کہنے لگا،چچا جان!آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں،میں نے جواب دیا، ہاں، لیکن اے بھتیجے!تمھیں اس سے کیا کام ہے؟لڑکے نے جواب دیا،مجھے معلوم ہواہے کہ وہ رسول اللہﷺ کو گالیاں دیتا تھا،قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگرمیں اُسے دیکھ لوں تو میرا جسم اس وقت تک اس کے جسم سے جدا نہیں ہوگاجب تک ہم میں سے کسی ایک کو موت نہ آدبوچے،میں اس کی گفتگو سُن کر حیران رہ گیا،دوسرے لڑکے نے بھی مجھے دباتے ہوئے ایسی ہی گفتگو کی،دیر نہ گزری کہ ابوجہل لوگوں میں چلتا پھرتا نظر آیا،میں نے کہا،جسے تم پوچھتے ہو،تمھارا نشانہ وہ شخص ہے،دونوں لڑکے اپنی تلواریں لے کر اس پر ٹوٹ پڑے،اور پے در پے وار کرکے اُسے پچھاڑ دیا ، پھر دونوں بارگاہِ رسالتﷺ میں حاضر ہوئے اور اس واقعہ کی خبر دی،آپ نے دریافت فرمایا کہ تم میں سے کس نے اُسے قتل کیا ہے؟دونوں میں سے ہرایک نے کہا،میں نے قتل کیا ہے، فرمایا،کیا تم نے اپنی خون آلودہ تلواریں صاف کرلی ہیں؟دونوں نے عرض کیا ،جی نہیں،آپ نے تلواریں ملاحظہ کرکے فرمایا، تم دونوں نے اسے قتل کیاہے۔

شاہواں توں افضل نے خادم تساڈے
معزز زمانے تے شاہکار تیرے
تیری پاک نسبت دا صدقہ ایہہ سارا
لاخوف خادم نے سرکار؂ تیرے

:ہم رسول اللہﷺپر قربان ہونے نکلے

بخاری شریف جلد2 حدیث نمبر382صفحہ192

حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ جنگِ حنین کے لیے ہم رسول اللہﷺکے ساتھ آپ پر قربان ہونے کے لیے نکلے۔

اکیسر ہے اُنکی خاکِ لحد جو تجُھ پہ مِٹے بخدا شاہا
ہیں سر وہ بلند تر برسوں سے جو تجھ پہ کٹے بخدا شاہا

معلوم ہوا کہ جو سب سے پہلے ایمان لائے اُن کی روایات کی شکل میں بھی نصیحت یہی ہے کہ حضورﷺکی ذات کے سامنے سب سے قیمتی چیز یعنی جان کی بھی پرواہ نہ کروپھر ایمان کامل ہوگا اور جب ایمان کامل ہوگیا تو پھر اچھے کام فائدہ دیں گے یہی بات انھوں نے کثرت سے روایت بھی کی ہے اورعملی طور پر ثابت بھی کی ہے

غزوہِ اُحدمیں پروانہ وار صحابہ کرام شمع رسالت مآب پر کٹ کٹ کر گرتے رہے۔ اپنے پیارے محبوبﷺ کے سامنے ہس ہس کے جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہے۔۔۔جب اچانک سرکارِ دوعالمﷺکی شہادت کی افواہ پھیلی،تمام صحابہؓ کے حوصلے ٹوٹ گئے۔۔۔ہر مجاہد کے دل پر قیامت گزر گئی۔۔۔قدم ڈگمگانے لگے۔۔۔ ہاتھوں سے تلواریں گرنیں لگیں۔۔۔گردنیں کٹنیں لگیں۔۔۔جب سنا کہ محبوب ہی نہیں رہا۔۔۔توزندگیوں سے پیار بھی جاتا رہا،کیوں کہ جس کی محبت جان سے بڑھ کرہو اُس کے بغیر جان کو کیسے قرار آسکتا ہے،یہی خبر جب ایک صحابیہ تک پہنچی تو وہ بے چینی کی حالت میں لوگوں سے دریافت کرنے لگیں کہ مجھے حضورﷺکی خبر دو؟۔۔۔کسی نے بتایا کہ تیرا باپ شہید ہوگیامگر اُنھوں نے سنی اَن سنی کرتے ہوئے وہی سوال دہرایا کہ مجھے میرے آقاﷺکے متعلق بتاؤ؟۔۔۔ایک اور صحابی نے بتایا،تیرا خاوند بھی شہید ہوگیالیکن اُنھوں نے وہی صدابلند کی کہ مجھے حضورﷺکے متعلق آگاہ کرو۔۔۔یہاں تک کہ کسی صحابی نے بتایا کہ بہن! تیرے دونوں بیٹے بھی اللہ اور اللہ کے رسول ﷺکی خوشنودی کے لیے شہید ہوچکے ہیں۔۔۔اب کی باربھی اُنھوں نے حضورﷺکا ہی پوچھا،جب یہ سنا کہ حضورﷺ خیریت سے ہیں توسجدہ ریز ہوکر خداتعالیٰ کا شکر ادا کیا۔۔۔اور کہا جب میرے آقاﷺ خیریت سے ہیں تو مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں۔

ہر ستم ہر جفا گوارا ہے
ہس کے کہہ دے کہ تو ہمارا ہے

اسی لیے وہ اپنی شان اور مقام میں ہرطرح سے لامثال ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آج صاحبِ ایمان موجود نہیں بلکہ آج بھی صاحبِ ایمان موجود ہیں جن کی علامات خود سرکارِ دوعالمﷺنے بیان فرمائی ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں۔

:حضورﷺسے بہت محبت کرنے والے

مسلم شریف بحوالہ مشکوٰۃ جلد نمبر3،بیان امت کا ثواب،صفحہ378

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں مجھ سے بہت محبت کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو میرے بعد ہوں گے، ان میں سے ہرایک تمنا کرے گا کہ اپنے گھربار اورمال کے عوض مجھے دیکھ لیتا۔

دیدار ضرور نصیب ہووے جدوں موت عمرانؔ قریب ہووے
تاں لذت وکھری مرنے دی گَل دَسی یاراں رو رو کے

اسی طرح حضورﷺنے ایک روایت میں عجیب ایمان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ

:عجیب ایمان والے

بیہقی دلائل النبوۃ بحوالہ مشکوٰۃ جلد نمبر3،بیان امت کا ثواب،صفحہ379

حضرت عمرو بن شعیبؓ سے وہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ تمھارے نزدیک مخلوق میں کون زیادہ عجیب ایمان والا ہے؟عرض کیا ،فرشتے،فرمایا کہ وہ کیسے ایمان نہ لاتے جبکہ وہ اپنے رب کے پاس ہیں،بولے کہ پھر انبیاء کرام،فرمایا کہ وہ کیسے ایمان نہ لاتے جبکہ اُن پر وحی اترتی ہے،لوگوں نے عرض کیا کہ کیاپھر ہمارا ایمان عجیب ہے؟فرمایا کہ تم کیسے ایمان نہ لاتے جبکہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں، پھررسول اللہﷺنے فرمایا کہ زیادہ عجیب ایمان والی وہ قوم ہے جو میرے بعد ہوگی۔

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

:فتنے والوں سے لڑیں گے

بیہقی دلائل النبوۃ بحوالہ مشکوٰۃ جلد نمبر3،بیان امت کا ثواب،صفحہ379

حضرت عبدالرحمنؓ فرماتے ہیں مجھے اس نے خبر دی جس نے نبی کریمﷺسے سُنا کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ اس امت کے آخر میں ایک ایسی قوم ہوگی جن کو اگلوں کا سا ثواب ہوگا،وہ بھلائی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے روکیں گے اور فتنے والوں سے لڑیں گے۔

یوں تو آساں نہیں مل جائیں نشاں تیرے
راہ دکھاتے ہیں مگر راز داں تیرے
تجھ سے غفلت ہی عمرانؔ کارِ ذلت ہے
ہیں معزز جہاں میں ثناء خواں تیرے

معلوم ہوا کہ حضورﷺسے محبت کرنے والے موجود ہیں جن کی علامت حضورﷺنے یہ بیان فرمائی کہ اگر انھیں میرے ایک جھلک دیکھنے کے عوض جان ومال قربان کرنا پڑے گی توذرا دیر نہیں کریں گے یعنی فوراً سودہ کرلیں گے اور حق بات کی نصیحت کریں گے اور فتنے والوں سے لڑیں گے ،اب ذرا فتنے والے کون ہیں حدیثِ مبارکہ سے ملاحظہ فرمائیں۔

:فتنے والے لوگ

بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر976صفحہ نمبر448
بخاری شریف جلد نمبر3حدیث نمبر1971صفحہ نمبر777

ابن عمرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے کہا،اے اللہ!ہمیں ہمارے شام میں برکت دے اور ہمارے یمن میں،لوگ عرض گزار ہوئے اور ہمارے نجد میں،دوبارہ کہا،اے اللہ!ہمیں ہمارے شام میں برکت دے اور ہمارے یمن میں،لوگ پھر عرض گزار ہوئے اور ہمارے نجد میں،فرمایا کہ وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور شیطان کا گروہ وہیں سے نکلے گا۔
اس حدیث سے واضح ہے کہ شام اور یمن کے علاقے برکت والے ہیں اور نجد( یعنی سعودیہ کا دارالاخلافہ ریاض) کا علاقہ منحوس ہے اسی لیے آپ نے دعائے رحمت سے محروم رکھاکیونکہ نگاہِ مصطفیﷺسے پوشیدہ نہیں تھا کہ اس علاقہ سے شیطان جیسی توحید کے علمبردار نکلیں گے جو ہر لحاظ سے شیطان کی پیروری کرتے دکھائی دیں گے اور کھلم کھلاانبیائے کرام واولیائے کرام کی گستاخیاں کریں گے اسی لیے حضور ﷺنے فرمایا اس علاقہ سے زلزلے و فتنے اور شیطان کی جماعت نمودار ہوگی،جن پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برس رہی ہوگی اور وہ رحمتِ دوعالمﷺاور اُن کے عشاق سے محبت کو شرک قرار دے گی ،شیطان جیسی توحید انبیاء کرام واولیائے کرام کی گستاخیوں کے علاوہ کچھ نہیں۔
یعنی ان فتنے والوں سے اہلِ ایمان متنفر ہوں گے اور حضورﷺسے سچی محبت کرتے ہوں گے اور حضورﷺکی ایک جھلک دیکھنے کیلئے سب کچھ قربان کرنا قبول کرلیں گے،حق بات کی نصیحت کریں گے اور بُرائی سے بچنے کا حکم دیں گے، ان فتنے والوں سے ایمان کی حفاظت بہت ضروری ہے کیونکہ یہ ایمان کی چوری بھی کرتے ہیں اور قرآن بھی سناتے ہیں،جیسے مولانا رومؒ نے ایک حکایت درج فرمائی ہے کہ

:پھل کا چور

مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ ایک چور موقع پاکر ایک باغ میں داخل ہوگیا اور توڑ توڑکر پھل کھانے لگا،جب باغ کے مالک نے دیکھا توپکارا،او بے شرم! کس کی اجازت سے پھل کھا رہا ہے؟چور نے بڑی لاپرواہی سے جواب دیا، کہ بے شرم اور جاہل تو ہے ،کیا تو نے قرآن و احادیثِ نبویﷺ کا مطالعہ نہیں کیا،یہ سُن کر مالکِ باغ حیران ہوا کہ ایک چور اور دوسرا سینہ زوریعنی ایک طرف تو چوری کررہا ہے اور دوسری طرف قرآن واحادیث کادرس بھی دے رہا ہے ،اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ قرآن یا احادیث مبارکہ کا درس صرف صالحین ہی نہیں دیتے بلکہ چور بھی اپنے مفاد کیلئے دے لیتے ہیں یعنی اپنے مقصد کیلئے آیات کا غلط استعمال کرنا گمراہوں کا طریقہ ہے حکمِ خداوندی کے مطابق’’اس قرآن سے کئی لوگ گمراہ بھی ہوجاتے ہیں‘‘۔

خود تو بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

بہرحال مالکِ باغ نے کہا،سبحان اللہ حضرت!آپ تو قرآن پاک کی ہدایت سے بھی فیضیاب ہیں،اچھا فرمائیں، قرآن و احادیث کیا فرماتا ہے ؟چور کہنے لگا ، قرآن ونبی اللہﷺکے فرمان سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا،تم کیا سمجھتے ہو کہ میں جو پورے درخت کے برابر وزن رکھتا ہوں خود بخود ہی یہاں آکر پھل کھانے لگا ہوں؟ہرگزنہیں یہ سب کچھ اللہ کے حکم کے مطابق ہے لہٰذا تمہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کا کوئی حق نہیں اگر شکایت کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ سے کرؤ۔
یہ درس سن کر مالکِ باغ نے چور کو پکڑ کراچھی طرح جوتوں سے مرمت کی،چور چلایا کہ مجھ پر ترس کرؤ،مالک نے کہا،اے جاہل! لگتا ہے توبھی میری طرح قرآن واحادیث سے واقف نہیں ،جبکہ قرآن واحادیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا،تم کیا سمجھتے ہو کہ یہ میرا جوتا اللہ کے حکم کے بغیر ہی تمھاری مرمت کر رہا ہے ؟چور نے جب اپنے ہی بیان سے جان خطرے میں دیکھی تو بولا کہ مجھے معاف کردو آئندہ ایسی حرکت نہیں کرؤں گا،مجھے مسئلہ سمجھ میں آگیا ہے کہ انسان کو بھی اللہ تعالیٰ نے اختیار عطا فرمایا ہوا ہے۔
اللہ معاف فرمائے ایسے چوروں سے جو مال اور ایمان کو چُرانے کیلئے قرآن سناتے ہیں،جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں پہلے ایمان لانا،ضروری قرار دیا ہے اُس کے بعد اچھے کاموں اور حق بات کی نصیحت کا حکم دیا ہے،جو خود بے ایمان ہو اُس نے نصیحت کیا کرنی اور اُس کی نصیحت نے دوسروں کو کیا فائدہ پہنچانا ہے؟۔

:ایک بوڑھا چور

ایک بوڑھا چور اپنے بیٹے کو چوری کرنے کے طریقے سمجھا رہا تھا۔۔۔ ایک دن وہ دونوں باپ بیٹا ایک ڈیرے کے قریب سے گزرے، جہاں بہت سارے لوگ کھانا کھا رہے تھے۔۔۔اورروشنی کیلئے چراغ جل رہے تھے، بوڑھے چور نے بیٹے کو بتایا کہ اس گھر سے جہاں چراغ روشن ہیں ہم نے چار مرتبہ چوری کی ہے،یہ سُن کر بیٹے نے کہا۔۔۔ابّا چلو واپس چلیں۔۔۔میں ہرگز چوری نہیں کرؤں گا،باپ نے کہا،بیٹا یہ تو کیسی باتیں کر رہا ہے؟چوری تو میرا پیشہ ہے ،اور تمھارے پاس آج وقت ہے ،مجھ سے کچھ سیکھ لو،وگرنہ بھوکے مروگے،بیٹے نے کہا،ابّا! تو نے بتایا ہے کہ اس گھر سے تم نے چار مرتبہ چوری کی ہے۔لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آج بھی ہزاروں مہمان یہاں کھانا کھا رہے ہیں۔۔۔اور ہمارے گھر میں اپنے کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں،اسی طرح یہاں روشنی کیلئے چراغ جل رہے ہیں جبکہ ہمارا گھرہمیشہ اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے، یہ سُن کر اُس کا باپ سخت شرمندہ ہوا۔
سچی بات ہے کہ مال کے چور ہوں یا ایمان کے چور ہوں اُن کے چراغ کبھی نہیں جلا کرتے،چراغ ہمیشہ اللہ کے محبوب بندوں کے ہی جلتے ہیں جنہوں نے بے شمار مخلوقِ خدا کو حق بات سے صراطِ مستقیم کا راہی بنایا ہے،جن کے ظاہر اور باطن سے ایمان کی خوشبو آتی ہے۔

:خوشبو سے جنگل مہک اٹھا

ایک دفعہ خواجہ عبدالقدوسؒ گنگوہی ایک جنگل سے گزرے وہاں آپ نے دیکھا کہ کچھ جوگی ایک بند مکان کے اردگرد پہرہ دے رہے ہیں،خواجہ صاحبؒ نے پوچھا، تم یہاں کیا کر رہے ہو؟انھوں نے کہاکہ ہمارے گُرو صاحب اس مکان کے اندر گزشتہ چھ ماہ سے چلہ کررہے ہیں اور ہم یہاں پہرہ دینے پر مقرر کیے گئے ہیں کیونکہ جو شخص اس مقفل مکان کے اندر جانے کی کوشش کرتا ہے وہ جل کر خاک ہوجاتا ہے ہم یہاں لوگوں کو آگے جانے سے منع کرتے ہیں، یہ سن کر خواجہ صاحبؒ نے فرمایا کہ میں اس مکان کے اندر جاؤں گا لہٰذا تم اس کا دروازہ کھولو،انھوں نے کہا ،ہم ایسا ہرگز نہیں کرسکتے،آپ اندر گئے تو فوراً خاکستر ہوجائیں گے،خواجہ صاحبؒ نے تبسم ریزی کے ساتھ خاموشی اختیار فرمالی اور اپنی روحانی قوت سے مکان کے اندر داخل ہوگئے،جب ہندؤگُرو نے دیکھا کہ کوئی شخص میرے مقفل مکان میں داخل ہوگیا ہے تو سخت غصہ میں کہا کہ تم کیسے اور کیوں آئے ہو؟خواجہ صاحبؒ نے فرمایا کہ تمھاری ملاقات کیلئے آیا ہوں، گُرو نے کہا،تمھارا میرے ساتھ کیا واسطہ ہے جبکہ تم مسلمان ہو،نیز کہا کہ اب یا مجھ سے کچھ دیکھویا پھر کچھ دکھاؤ؟خواجہ صاحبؒ نے فرمایا کہ تم نے یہ تو ابھی دیکھ لیا ہے کہ میں تمھارے مقفل مکان کے اندر بغیر دروازہ کھولے داخل ہوگیا ہوں، اب تمھاری باری ہے،یہ سن کرگرو نے کہا، لوپھر تم بھی ملاحظہ کرو،یہ کہہ کر ہندؤ گُرو نے اپنے جسم کو بالکل پانی بنا دیا،یعنی پورا جسم پانی کی طرح بہنے لگا، خواجہ صاحبؒ نے اس کے پانی سے اپنا ایک کپڑا بھگو لیا،جب گُرو دوبارہ اپنی اصلی حالت میں آیا تو خواجہ صاحبؒ نے فرمایا،واقعی تم نے بہت بڑے کام کا مظاہرہ کیاہے،لوپھر ہم بھی ایسا کرتے ہیں لیکن یاد رکھنا، جب تم پانی بنے تھے تو ہم نے یہ کپڑا تمھارے پانی سے تر کرلیا تھا،جب ہم پانی بن جائیں تو تم بھی اپنا کپڑا میرے پانی سے بھگو لینا ،اس نے کہا ٹھیک ہے،اس کے بعد خواجہ صاحبؒ نے بھی اپنے جسم کو پانی میں تبدیل کردیا اور ہندؤگُرو نے فوراً اپنا کپڑا بھگو لیا، جب آپ ظاہری حالت میں واپس آئے تو ہندؤگُرو نے بھی داد سے نوازا،مگر خواجہ صاحبؒ نے فرمایا کہ ابھی بات ختم نہیں ہوئی،گرو نے پوچھا وہ کیسے؟خواجہ صاحبؒ نے فرمایاجب تم پانی بنے تھے تو میں نے یہ کپڑا بھگو لیا تھا ۔۔۔لو اب اس کپڑے کو سونگھو،جب اُس نے سونگھا تو سخت گندی بدبو سے اس کا سر چکرانے لگا بعدازاں خواجہ صاحبؒ نے فرمایا کہ اب میرے پانی والا کپڑا اپنے ناک کے نزدیک کرو لہٰذا جب اس نے وہ سونگھا تو بہت پیاری اور دلآویز خوشبو سے روح تک مہک اٹھی،آپ نے فرمایا کہ اب اپنے والے کپڑے کو باہر چھنکاؤ،جب اس نے چھنکایا تو باہر کھڑے چیلے بدبو سے بیزار ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے،تب آپ نے فرمایا کہ اب میرے والا کپڑا باہر چھنکاؤ چنانچہ اس نے وہ چھنکایا تو پورا جنگل خوشبو سے مہک اٹھا، یہاں تک کہ وہ سبھی چیلے واپس آگئے،گرو نے حیران ہوکر پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوا،خواجہؒ صاحب نے فرمایا کہ تم نے مسلسل کوشش اور محنت سے شیطانی قوت تو حاصل کرلی ہے مگر تمھارا راستہ درست نہیں ،یہ خوشبو کا فیضان صرف غلامیِ محمدﷺاور عشقِ محمدﷺسے حاصل ہوسکتا ہے یہ سن کرہندؤ گرو خواجہ صاحبؒ کے قدموں میں گر پڑا،اور عرض کی مجھے بھی کلمہ پڑھاکر ایمان والوں میں شامل فرما لیجئے،چنانچہ خواجہ صاحبؒ نے اُسے اور اس کے تمام چیلوں کو کلمہ شریف پڑھا یا اور فیضانِ حق بات سے مستفید فرمایا۔

لحد پہ بھی پھُول ہونگے لحد میں بھی مہک ہوگی
کچھ چُن لو پھُول تم بھی گلزارِ اولیاء سے

 :شیطان اور امام رازیؒ

جب حضرت امام فخرالدین رازیؒ کا آخری وقت آیا تو شیطان بھی اپنا آخری جال ڈالنے پہنچ گیا،اور امام رازیؒ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا ،اے رازیؒ !تم اپنے زمانے کے بڑے مشہور عالم ہو اور کئی مناظرے جیت چکے ہو،مجھے یہ بتاؤ کہ تمھارے پاس خداتعالیٰ کی ذات پر کیا دلیل ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ خدا ہے بھی کہ نہیں؟آپ نے ایک بڑی قوی دلیل دی مگر وہ ازلی لعنتی معلم الملکوت رہ چکا تھا اُس نے فوراًدلیل سے دلیل کو رد کردیا ،آپ نے ایک اور دلیل دی وہ بھی اُس نے رد کردی یہاں تک کہ آپ نے تین سوساٹھ دلیلیں پیش کی جن کو وہ اپنے دلائل سے رد کرتا رہا،یہ دیکھ کر آپ سخت پریشان ہوئے کہ اب کیا کیا جائے اگر ایسی تذبذب کی کیفیت میں زندگی کا اختتام ہوا توسب کچھ برباد ہوجائے گا اُس دوران آپ کے پیرِ کامل شائخ نجم الدین کبریٰ ؒ کی دوردراز سے آواز آئی کہ اِسے کیوں نہیں کہتا کہ میں بغیر دلیل خدا کو ایک مانتا ہوں لہٰذا جب آپ نے یہ جواب دیا تو شیطان مایوس ہوکر ہاتھ ملنے لگا۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت جلد۴)
میرے دوستو حقیقت یہی ہے کہ ایمان کا حاصل کرنا اور ایمان کی حفاظت حضورﷺکے عشاق کی حق بات سے ہی ممکن ہے جن کی حق بات ایمان کی دولت سے فیض یاب بھی کرتی ہے اور جب ایمان خطرہ میں ہوتا ہے تو محافظ بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔



ترجمہ! ’’ ایک دوسرے کو حق کی تاکیدکی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی‘‘ (سورہ العصر،آیت نمبر۳)


میرے دوستو حضورﷺکی حدیثِ مبارکہ میں آتا ہے کہ


بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر1257صفحہ نمبر546


حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، بے شک خدا کی قسم مجھے تمھارے متعلق ڈر نہیں ہے کہ میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم دنیا کی محبت میں نہ پھنس جاؤ۔
میرے دوستو اس حدیثِ مبارکہ میں حضورﷺنے جس خدشے کا اظہار فرمایا ہے وہ شرک نہیں بلکہ دنیا کی محبت ہے جسمیں ہم مبتلا ہوکر ایمان اور ایمان والوں کی صحبت سے دورہوجاتے ہیں بلکہ ہمیں اُس محفل کیلئے وقت ہی نہیں ملتا جسمیں اہلِ ایمان حق بات بیان کرتے ہیں اور حق کے راستہ پر چلنے کا درس دیتے ہیں،ہم دنیا کی محبت میں پھنسنے کی وجہ سے اہلِ ایمان کی نصیحت نہیں سنتے جس کے باعث رفتہ رفتہ دولتِ ایمان سے محروم ہونے لگتے ہیں کیونکہ ہماری غفلت کے باعث ایمان کے لیٹرے خوب فائدہ اُٹھاتے ہیں جن کے لباس اور ظاہری اعمال کو دیکھ کر ہم اہلِ ایمان سمجھنے لگتے ہیں اور مکمل اُن پر اعتماد کرنے لگتے ہیں جس سے وہ ہمیں دولتِ ایمان سے محروم کردیتے ہیں۔
حاضرینِ محترم !اللہ کریم نے جن کو حق بات کی تلقین کا حکم صادر فرمایا ہے اُن کی قربت میں حاضری دینے سے اوراُن کا درس سننے سے ہی ایمان کاحصول اور سلامتی یقینی ہے کیونکہ آج کے پُرفتن دور میں حضورﷺکے عشاق یعنی اہلِ ایمان ہی ایمان کی سلامتی کی ضمانت ہیں اور گناہوں سے بچانے کا ذریعہ ہیں۔

:حضرت سرّی سقطی ؒ اور شرابی

ایک دفعہ حضرت سرّیؒ سقطی ایک جگہ سے گزر رہے تھے وہاں آپ نے ایک شرابی کو دیکھا کہ شراب کے نشہ میں پوری طرح مست پڑا ہواتھا اور اس کی زبان پر اللہ تعالیٰ کا مقدس نامِ مبارک چڑھ گیا جس کو نشہ کی حالت میں مسلسل الاپ رہا تھا جب حضرت سرّی سقطیؒ نے دیکھا تودِل میں کہنے لگے کہ اس بے خبر کو تو معلوم نہیں کہ یہ پلید منہ سے پاکیزہ نام ادا کر رہا ہے،میں کیوں نہ اس کا منہ دھو ڈالوں؟یہ سوچ کر آپ آگے بڑھے اور پانی سے اچھی طرح اس کا منہ دھویا ،اور وہاں سے روانہ ہوگئے،جب شرابی کو کچھ ہوش آیا تو وہاں موجود لوگوں نے اس کو تمام واقعہ سے آگاہ کیا،جس پر وہ انتہائی شرمسار ہوا۔۔۔اور اپنے نفس کو مخاطب کرکے کہنے لگا،اے بے حیا نفس!اب تجھے ایسے کام سے شرم کرنی چاہیے کیونکہ تم نے ایک اللہ کے محبوب بندے کے سامنے مجھے رسوا کر کے رکھ دیا ہے،یہ کہہ کر زاروقطار رونے لگا اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگا،دوسری جانب جب حضرت سرّی سقطیؒ معمول کے مطابق آرام فرما ہوئے تو غیب سے آواز آئی، اے میرے دوست!تم نے میرے نام کی خاطر ایک شرابی کا گندہ منہ دھویا ہے اور ہم نے تیری خاطر اس کا دل بھی دھو دیا ہے،بعدازاں جب حضرت سرّی سقطیؒ تہجد کے وقت مسجد میں گئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ شرابی وہاں پہلے سے موجود عبادت میں مشغول ہے،آپ نے اس سے پوچھا،یہ اتنا بڑاانقلاب کیسے آیا؟اس نے عرض کیا،جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام حقیقت سے آگاہ فرما دیا ہے تو پھر مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں۔

:عادی چور تائب ہوگیا

ایک مرتبہ بغداد میں ایک سیاہ باطن چورنے اپنے بد افعال کی وجہ سے کافی شہرت حاصل کی،ویسے تو وہ بچپن میں ابن ساباط کے نام سے جانا پہچانا جاتا تھا مگر بعد میں کٹے ہاتھ والا ابلیس مشہور ہوگیااُسکی وجہ یہ تھی کہ ایک دفعہ چوری کی واردات میں پکڑے جانے پر حکومت نے اُس کا ہاتھ کاٹ دیا تھا،مگر وہ اس سزا کے باوجود اپنے بُرے اعمال سے باز نہ آیا،طویل مدت جیل خانہ کی سخت سزائیں برداشت کرتا رہتا مگر جب آزادی ملتی توپھر وہی سیاہ دھندے شروع کر دیتا،ایک مرتبہ جب قیدخانہ سے خلاصی ملی تو پہلی ہی رات چوری کے ارادے سے گلیوں میں گشت کرنے لگا،رات کا نصف حصہ گزر چکا تھا،اسی دوران وہ ایک بہت بڑی حویلی کے سامنے رک کرجائزہ لینے لگا،اُس کا خیال تھا یہ حویلی کسی بہت بڑے رئیس تاجر کی ہوگی اور مجھے یہاں سے کافی مال ہاتھ آسکتا ہے، یہ سوچ کر آہستہ آہستہ حویلی کی جانب بڑھا۔۔۔جب مین گیٹ کے قریب پہنچ کر ہاتھ رکھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ گیٹ پہلے ہی سے کھلا ہوا ہے۔۔۔کچھ دیر خاموشی سے جائزہ لیتا رہا۔۔۔بل آخر بڑی احتیاط سے اندر داخل ہوگیا...اندر اُس نے دیکھا کہ حویلی کی چاروں جانب چھوٹے چھوٹے حجرے بنے ہوئے ہیں اور درمیان میں ایک نہایت کشادہ کمرہ ہے،ابن ساباط نے سوچا کہ یقیناًگھر کا سارا مال و متاع اس بڑے کمرے میں ہوگا،وہ اسی سوچ کے مطابق اُس کمرے کی جانب چل پڑا،جب اُس کے دروازے کوبھی ہاتھ لگایا تو وہ بھی حسبِ سابق کھلا ہوا پایا،کچھ دیر وہاں رک کر کمرے میں داخل ہوگیا،کمرے میں کوئی شخص موجود نہ تھا ہر طرف خاموشی کا پہرہ تھا،آہستہ آہستہ آگے بڑھ کر سامان کا جائزہ لینے لگا،سامان دیکھ کر کچھ دیر کیلئے مایوس ہوا کیونکہ کمرہ کے اندر موجود سامان نہایت معمولی مالیت کا تھا جسمیں چند صوف(ایک قسم کاموٹا کپڑا)کے تھان،کچھ ٹوپیاں اورچمڑے کا تکیہ وغیرہ شامل تھے،کچھ دیر تک حویلی کے مالک کو بُرا بھلا کہتا رہا کہ تم نے اتنی بڑی حویلی تو بنا لی ہے مگرسامان انتہائی معمولی نوعیت کا رکھا ہوا ہے بعدازاں سوچا کہ آج رات اسی مال سے کام چلا لینا چاہیے بل آخر صوف کے تھان اکٹھے کرنے لگا۔۔۔ اُسے اس کام میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھااس کی وجہ ایک ہاتھ سے محرومی تھی،کافی کوشش کے بعد اُس نے تمام تھان ایک کپڑے میں رکھ لیے اور گرہ لگانے کی کوشش کرنے لگا مگر ایک ہاتھ سے گرہ لگانے میں کامیاب نہ ہوا ، ابھی کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ ایک نہایت خوبرو بابا جی ہاتھوں میں چراغ لیے کمرے میں داخل ہوئے،یہ دیکھ کر ابن ساباط کچھ لمحوں کیلئے نہایت فکرمند ہوا مگر باباجی نے مسکراتے ہوئے ملاقات کی اور ابن ساباط سے کہا،بھائی!یہ کام تم اکیلے سے نہیں ہونے والا،ویسے بھی تم ایک ہاتھ سے محروم ہو۔۔۔آؤ میں تمھاری مدد کرتا ہوں،یہ کہہ کر بابا جی نے جلدی سے اُن تھانوں کو دو علیٰحدہ علیٰحدہ گھٹڑیوں میں باندھ دیا،جن میں ایک کافی بڑی تھی جبکہ دوسری چھوٹی،یہ کام کرنے کے بعد دوبارہ بابا جی نے ابن ساباط سے کہا، تمھیں کافی نقاہت اور بھوک کا سامنا ہوگا،ٹھہرجاؤ۔۔۔میں ابھی تمھارے لیے گرم گرم دودھ لاتا ہوں،یہ کہہ کر بابا جی کمرے سے نکل گئے،ابن ساباط ایک ہی جگہ تصویرِ حیرت بناسوچ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟اسی دوران اس نے قہقہ لگاتے ہوئے اپنے آپ سے کہا کہ میں بھی کتنا بے وقوف ہوں۔۔۔میں یہ بھی نہیں سمجھ سکا کہ یہ بھی میرا ہم پیشہ ہے،آج اسے معلوم تھا کہ یہ گھر اپنے مکینوں سے خالی ہے تو یہ چوری کے ارادے سے جب یہاں پہنچا تو مجھے پہلے سے موجود پاکر میرے ساتھ تعاون کرنے لگا ہے تاکہ حصہ دار بن سکے،ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ بابا جی حسبِ سابق مسکراتے ہوئے دودھ سے بھرا گلاس لائے، جسے ابن ساباط نے فوراً پی لیا،دودھ پینے کے بعد ابن ساباط ذرا اونچی آواز میں کہنے لگا،سنومیاں! مجھے سب معلوم ہوگیا ہے کہ تم میرے ہم پیشہ ہو، تمھیں اپنے پیشہ کا قانون تو معلوم ہے ناں؟یعنی جو مال تک پہلے پہنچ جائے سارا اُسی کا ہوتا ہے لہٰذا اس قانون کے مطابق اس مال پر میرا ہی حق بنتا ہے البتہ جس چستی سے تم نے مال اکٹھا کیا ہے اگر اب مجھے میرے ٹھکانے تک پہنچا آؤ تو چھوٹی گھٹڑی تمھیں دے دوں گا،یہ سن کر بابا جی نے کہا تم فکر مند نہ ہو میں تمھیں تمھارے ٹھکانے تک پہنچا آؤ ں گاچنانچہ بابا جی نے بڑی گھٹڑی اُٹھا کر اپنی جھکی ہوئی کمر پر رکھ لی جس سے اور بھی کمر جھک گئی لیکن ہمت کرکے ابن ساباط کے ساتھ چل پڑے، راستہ میں بار بار بابا جی گر پڑتے،جس سے ابن ساباط نہایت سخت الفاظ کا استعمال کرنے لگتا،ایک اونچی پل کو عبور کرتے ہوئے جب بابا جی گرے تو ابن ساباط نے غصہ میں پاگل ہوکر بُرا بھلا کہتے ہوئے پشت پر لات دے ماری،مگر بابا جی نے نہایت تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابن ساباط سے معذرت کی اور دوبارہ گھٹڑی کمرپر لاد کر چلنے لگے،جب شہر سے باہر نکل آئے تو ایک جانب ابن ساباط نے اشارہ کیا کہ وہ سامنے جنگل میں میری پناہ گاہ ہے،جب اُس مقام پر پہنچے تو ابن ساباط اُس کھنڈر نما رہائش گاہ میں داخل ہوگیا اور بابا جی سے کہا کہ تم دیوار سے بڑی گھٹڑی اندر پھینک دینااور چھوٹی تم لے لینالیکن بابا جی نے دونوں گھٹڑیاں اندر پھینک دی یہ دیکھکر ابن ساباط نے دیوار سے دیکھا توبابا جی لمبے لمبے سانس لے رہے تھے ،ابن ساباط نے چاند کی روشنی میں غور سے دیکھا تو بابا جی کا چہرہ نورانیت کا مرکز معلوم ہو رہا تھا،اذانِ فجر کا وقت قریب تھا، بابا جی نے ابن ساباط کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ، بھائی!وہ حویلی میری ہی ہے اور میں اپنی خوشی سے تمھیں یہ مال بخشتا ہوں۔۔۔اور اپنی نقاہت کے باعث پیش آنے والی سستی پر معذرت خواہ ہوں،یہ کہہ کر باباجی تیزی سے واپس پلٹ گئے، یہ الفاظ سن کر ابن ساباط پر سکتہ طاری ہوگیا،کافی دیر کے بعد اپنے آپ کو سنبھال کر سوچنے لگا کہ کیا ایسے انسان بھی دُنیا میں موجود ہیں؟بابا جی کا حسنِ اخلاق، صبر وتحمل ،نورانی چہرہ اورپُرتاثیر الفاظ ابن ساباط کے دل میں خنجر بن کر چُبھ گئے،برسوں سے مردہ ضمیراب جاگ چکا تھا،کچھ دیر بعد پیچھے روانہ ہوا،جب اُسی حویلی کے سامنے پہنچا تواذانِ فجر کا وقت ہوچکا تھا،اُس وقت حویلی کے باہر چند لوگ موجود تھے، اُن سے ابن ساباط نے پوچھا کہ بھائیو! یہ حویلی کس تاجر کی ہے؟اُنھوں نے مسکرا کر کہا،معلوم ہوتا ہے کہ تم اس شہر میں نئے آئے ہو؟سنو!یہ حویلی کسی دنیادار تاجر کی نہیں بلکہ حضرت جنیدؒ بغدادی کا آستانہ ہے،یہ نام سن کر ابن ساباط پر لرزہ طاری ہوگیا،جب حویلی کے اندر داخل ہوا تودیکھا کہ اسی بڑے کمرہ میں وہی بابا جی مسند پر بیٹھے ہوئے ہیں اور تیس چالیس آدمی اُن کے اردگرد بآادب محوِ زیارت ہیں،ابن ساباط پر سخت ندامت کا غلبہ تھاکچھ دیر کمرے سے باہر کھڑا رہا اسی دوران مسجد میں اذانِ فجر کی آواز سنائی دی۔۔۔سبھی حاضرین مسجد کی جانب روانہ ہوگئے،جب حضرت جنیدؒ بغدادی کمرے سے نکلنے لگے تو ابن ساباط نے آگے بڑھ کر قدموں پہ سر رکھ دیااور گریہ زاری کرتے ہوئے معافی کا خواستگار ہوا،حضرت جنید بغدادیؒ نے نہایت محبت سے ابن ساباط کو اُٹھا کر سینے کے ساتھ لگا لیااور اُسی بدنام زمانہ اور ہاتھ کٹے ابلیس کو نگاہِ کرم سے شیخ احمد ولی بنا دیا ،سبحان اللہ جس مجرم کو قانون کی سخت سے سخت سزا تبدیل نہیں کرسکی،صرف رات کا کچھ حصہ ایک اہلِ ایمان کے ساتھ بسر ہونے سے وہی مجرم اہلِ ایمان میں شامل ہوگیا۔

حالات بدلتے ہیں کچھ خام بدلتے ہیں
اِک اُن کے اشارے سے انجام بدلتے ہیں

بلاشبہ اہلِ ایمان ہی گناہوں سے بچانے کا ذریعہ ہیں وہ اپنی گفتار اور کردار ہر طرح سے حق بات کی نصیحت کرتے ہیں۔


ترجمہ! ’’ ایک دوسرے کو حق کی تاکیدکی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی‘‘ (سورہ العصر،آیت نمبر۳)


مگراہلِ ایمان اُسی بات کی تلقین کرتے ہیں جس پر خود بھی عمل پیرا ہوتے ہیں اسی لیے ان کی گفتار اور کردار سے عشقِ مصطفیﷺکی خوشبوآتی ہے۔


:اہلِ ذکر کا نسخہ


بابا فرید الدینؒ کے پاس ایک بی بی اپنے کم سن بچے کو لے کر حاضر ہوئی،بعد از قدم بوسی عرض کرنے لگی کہ اس بچے کو دم فرمائیں،یہ شکر بہت کھاتا ہے جسکے باعث جلدی امراض(Skin disease)میں مبتلا رہتا ہے ،بابا صاحبؒ نے فرمایا کہ تم اسے کل لے آنا۔۔۔چنانچہ وہ خاتون حسبِ حکم دوسرے روز دوردراز کا سفر کرنے کے بعد حاضر ہوئی،آپ نے وعدہ کے مطابق بچے کو مخاطب کرکے فرمایا کہ بیٹا!آئندہ تم نے شکر سے پرہیز کرنی ہے بس اتنا فرما کر خاتون کو کہا کہ اسے، لے جاؤ ،اب انشاء اللہ تعالیٰ پرہیز کرے گا،خاتون نے عرض کی کہ اگر یہی دم تھا تو کل ہی کردیتے،مجھے دوبارہ سفر کی تکلیف نہ اٹھانی پڑتی، فرمایا، تمھارے طویل سفر کا مجھے احساس ہے مگر کل میں نے خود شکر کھائی ہوئی تھی،ایسی حالت میں جبکہ خود بدپرہیزی کی ہو اور دوسروں کو پرہیز کی تلقین کرنا مناسب نہیں اور نہ ہی اس طرح کوئی عمل اثر کرتا ہے بلکہ یہ طریقہ اہلِ ایمان کے نزدیک قابلِ نفرت ہے ،اب جبکہ میں نے خود پرہیز کی ہے اس لیے دوسروں کوبھی پرہیز کروانے کا حق رکھتا ہوں چنانچہ میری بات اپنے بچے کی صحت یابی سے آزما لینا ۔
میرے دوستو یہ اہلِ ایمان کا طریقہ ہے کہ وہ وہی بات کرتے ہیں جس پر خود عمل بھی کرتے ہیں لہٰذااہلِ ایمان کے ساتھ مل کرحق بات پر عمل بھی کریں اور دوسروں تک اس پیغامِ حق کو منتقل بھی کریں،کیونکہ 


ترجمہ! ’’ ایک دوسرے کو حق کی تاکیدکی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی‘‘ (سورہ العصر،آیت نمبر۳)


آخر میں دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیبﷺکے طفیل ہمیشہ اہلِ ایمان کی فیض بخش محفلوں اور آستانوں سے حق بات کے فیوض وبرکات حاصل کرنے کی اور آگے پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے رکھے۔ امین امین امین


واقف کار بے شک خدا تیرا جانوں کوئی وی تیرے کمال دا نئیں

خاکِ قدم دی قسم قرآن اندر ایتھے حوصلہ کسِے سوال دا نئیں
تیری مثِل نہ رب بیان کیتی ممکن داخلہ کسِے مثال دا نئیں
عربی ماہی دی گَل عمرانؔ اُچی ثانی کوئی وی سوہنے بلالؓ دا نئیں
ﷺﷺﷺ
ایساخالق نے خلقیا یار اپنا چھوڑی مثل نہ کوئی جہان اُتے
گَل آخری یار دے ناں کیتی سارے حرف محفوظ قرآن اُتے
کیڈی عزت انسان دی بن گئی اے عرش فرش زمیں اَسمان اُتے
شاناں ختم عمرانؔ رحمٰن دی سونہہ شہنشاہ محمد؂ دی شان اُتے
ﷺﷺﷺ
قبر وچ سوال تے تِن ہوسن وچوں اِک سوال نجات دا اے 
پہلے رب تے دین دی گل ہوسی سارا زور پر اگلی بات دا اے
نہ کوئی علم کلام دی گل اَگے نہ کوئی ذکر نماز زکوٰۃ دا اے
ہوسی بَری عمرانؔ جمال پاندا جانو جو ؂محمد دی ذات دا اے
ﷺﷺﷺ
تیرے آئیاں توحید دا پتہ لگا تیری ذات ثبوت خدا دا اے
اَگے کون خدا نوں جاندا سی ہن تے ورد ہی لا الہ دا اے
عزیٰ لات منات نابود ہوئے جلوہ ویکھ کے پاک بقا دا اے
نعرے اُس دے مار عمرانؔ اُچے سارا کرم اِیہہ جہدی نگاہ دا اے

No comments:

Post a Comment

آمدو رفت