Mymenu

Pages

Darood-o-Salam

درود و سلام -ذکرِ درود و سلام


جو کثرتِ درُود و سلام ہو جائے
کیسے نہ قلب بیتُ الحرام ہو جائے
رضائے یزداں تو با خدا یہی ہے
کہ زندگانی محمدؐ کے نام ہو جائے

ﷺﷺﷺ

 !معزز سامعین محترم

اللہ کریم اپنے حبیبِ مکرم ﷺکے طفیل ہمیشہ صراطِ مستقیم پر قائم رکھے جوکہ انعام یافتہ بندوں کا راستہ ہے اور انعام یافتہ بندوں کے فیض بخش آستانوں اور محفلوں سے عشقِ خدا ورسول ﷺکے فیوض وبرکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے رکھے۔۔۔اور جن لوگوں پر غضبِ خداوندی نازل ہوا ہے اُن کے شر سے اپنی حفاظت میں رکھے ۔ امین۔

میرے دوستو!آج جو آیتِ مقدسہ آپ کے سامنے تلاوت کرنے کا شرف حاصل کیا ہے ،اس کا ترجمہ اور تشریح سماعت فرمانے سے پہلے چند اہم باتوں کو ذہن نشین کرلیں پھر اس کلام الہٰی کے فیوض وبرکات سے فیضاب ہونے میں آسانی رہے گی۔
یہ تو سبھی اہلِ اسلام جانتے ہیں کہ اللہ کریم نے عبادت کے سلسلہ میں بعض احکامات کو فرضیت کا درجہ عطا فرمارکھاہے جیسے نمازِپچگانہ،رمضان کے روزے، صاحبِ نصاب کیلئے زکوٰاۃ، صاحبِ حیثیت کیلئے کم از کم زندگی میں ایک مرتبہ حجِ بیت اللہ،اور اسی طرح صاحبِ ثروت کیلئے قربانی کا بھی حکم شامل ہے مگر کسی بھی حکم کے اول یا آخر یہ نہیں فرمایا کہ میں بھی ایسا کرتا ہوں اور میرے فرشتے بھی ایسا کرتے ہیں لہٰذا تم بھی کرو ، لازمی بات ہے کہ اللہ کریم معبود ہیں اُن کیلئے عبادت کی جاتی ہے اور وہ خود عبادت سے پاک ہیں لیکن ایک عمل ایسا بھی ہے جسمیں اللہ کریم از راہِ محبت خود بھی اپنے بندوں کے ساتھ شامل ہیں اور وہی ہمارا آج کا موضوع بھی ہے لہٰذا اللہ کریم کے حکم سے استفادہ کرتے ہیں۔ 

بے شک اللہ اور اسکے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے(نبی)پراے یمان والو ان پر درود اور ’’
خوب سلام بھیجو‘‘۔
(سورہ الاحزاب،آیت نمبر۵۶)

کلامِ الہیٰ سے معلوم ہوا کہ وہ ایک ہی کام ہے جسمیں اللہ کریم اپنے بندوں سے لے کر فرشتوں تک سبھی کو شامل کیے ہوئے ہیں اور وہ کام ہے ہمارے آقا ومولا حضرت محمدﷺپر درود وسلا م بھیجنا،سبحان اللہ کیاشان ہے سرورِ کائناتﷺ کی، جن کی ذات اور نام پر مخلوق سے لے کر خالق تک سبھی یکجا ہوکر درودوسلام بھیجتے ہیں۔

وردِ علیمِ اکبر تیرا ہی اسمِ طاہر
مخلوق کا وظیفہ تیری شان شاہِ عربیﷺ

لیکن ایک بات آیتِ مبارکہ سے بہت واضح ہے یعنی اللہ کریم نے سب سے پہلے اپنا اور فرشتوں کا ذکر فرمایا ہے اور اس کے بعد صرف اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم بھی میرے محبوبﷺپر خوب درود وسلام بھیجو،یہاں اللہ کریم کی صرف اہلِ ایمان کو دعوت دینے میں کیا حکمت پو شیدہ ہے ،یہ جاننے کے لیے اہلِ ایمان کا جاننا ضروری ہے کہ اہلِ ایمان ہیں کون؟ لہٰذا اس متعلق مستنداحادیثِ مبارکہ سنتے ہیں۔

بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر13صفحہ نمبر 112

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا،قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اُسے اُس کے والد اور اُس کی اولاد سے عزیز ترنہ ہوجاؤں۔

بخاری شریف جلد نمبر1حدیث نمبر 14صفحہ نمبر 112

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا،تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا ۔۔۔یہاں تک کہ میں اُسے اُس کے والد،اُس کی اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب نہ ہوجاؤں۔
معلوم ہوا کہ اہلِ ایمان تووہی ہیں جو ہر رشتے سے بڑھ کر رسالت مآبﷺ سے محبت کرتے ہیں لہٰذا آیتِ مقدسہ میں بھی اللہ کریم نے اپنے محبوبﷺ کوہر چیز سے بڑھ کر چاہنے والوں ہی کو دعوت دی ہے کیونکہ محبت ہی کا سودہ ہے اوراہلِ محبت ہی میں تقسیم کیا گیا ہے ،حضورﷺسب سے پہلے اللہ کریم کے محبوبﷺ ہیں اس لیے اللہ کریم نے آیت کے شروع ہی میں پہلے اپنا ذکر فرمایا ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ درود بھیجتا ہے ،پھر فرشتوں کا اور پھر صرف اہلِ ایمان کا،اگرچہ اللہ کریم کا درود بھیجنا رحمت کا نازل کرنا ہے جبکہ ہمارااور فرشتوں کا درود بھیجنا اللہ کی بارگاہ میں حصولِ رحمت کا سوال کرنا ہے جیسے ایک سوالی کسی صاحبِ حیثیت کے مکان کے باہر کھڑا ہوکر اُسے دعائیں دیتا ہے۔۔۔ حالانکہ وہ اتنا مستجاب الدعوات ہوتا تو اُسے گلیوں محلوں کے چکر نہ لگانے پڑتے۔۔۔اُس کا مقصد تو صرف اپنے لیے خیرات مانگنا ہے اس لیے وہ اچھے طریقے سے اہلِ مکان کو دعائیں دیتا ہے جس سے اُسکا اپنا کام بن جاتاہے،عین اسی طرح ہمارا حضورﷺکی بارگاہ میں درود وسلام بھیجنا بھی ایک سوالی کی صدا کی مانند ہے جس کی برکت سے اللہ کریم درودوسلام بھیجنے والے پر رحمتوں کا نزول فرماتے ہیں۔ 
جیسا کہ احادیثِ مبارکہ میں آتا ہے۔

 :درود شریف سے رحمتیں

مسلم شریف بحوالہ مشکوٰۃ شریف جلد نمبر1،باب درودِ پاک،صفحہ215

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا،اس پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔

سرتاج دو عالم صَدر العُلیٰ مختار محمد صَلّے علےٰ
محبوبِ خُدا مطلوبِ جہاں سرکار محمد صَلّے علےٰ
اوصاف زمانے سارے دے خیرات تساڈے قدماں دی
سب ولیاں اندر روشن نے انوارِ محمد صَلّے علےٰ

نسائی شریف بحوالہ مشکوٰۃ شریف جلد نمبر1،باب درودِ پاک،صفحہ216

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا،جو مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا،اللہ اس پر دس ’’
رحمتیں نازل فرمائے گا اور اس کے دس گناہ معاف کیے جائیں گے اور اس کے دس درجے بلند کیے جائیں گے‘‘۔

مخلوق توں لے کے خالق تک خالق نے خود فرمایا اے
تیرا اسم چتاریا جاندا اے لگاتار محمد صَلّے علےٰ

نسائی ،دارمی بحوالہ مشکوٰۃ شریف جلد نمبر1،باب درودِ پاک،صفحہ217

’’حضرت ابوطلحہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺ تشریف لائے تو خوشی آپ کے چہرہِ انور میں تھی،فرمایا کہ میرے پاس حضرت جبرائیلؑ آئے، عرض کیا کہ اے محمدﷺ!اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا آپ اس پر راضی نہیں کہ آپکا کوئی اُمتی آپ پر ایک بار درود بھیجے گا تو اس پر دس رحمتیں نازل کروں گااور جو کوئی ایک سلام بھیجے گا اُس پر دس سلام بھیجوں گا‘‘۔

اے صاحبِ خلقِ عظیم آقا چارہ ساز دوعالم سارے دے
تیرا تخت سلامت شاہِ امم دِلدار محمد صَلّے علےٰ

واضح ہوا کہ ہمارا حضورﷺ پر درود وسلام بھیجناہم پر ہی رحمتوں و برکتوں کے نزول کا باعث ہے یہی نہیں بلکہ گناہوں کی معافی اور درجات کی ترقی کا موجب ہے اور ایک سلام کے بدلے دس سلاموں کے انعامات بھی ہیں ،درحقیقت اس وظیفہ کی تلاوت ہر لحاظ سے تلاوت کرنے والے کو فائدہ پہنچاتی ہے اگر کوئی یہ سمجھے یا اُسے شیطان فریب میں مبتلا کرے کہ اس دعائے رحمت یعنی درود شریف کی حضورﷺ کو ضرورت ہے ؟تو اس کوپہلے تلاوت شدہ آیت پر غور کرنا چاہیے کہ جس پر اللہ تعالیٰ اور اُسکے فرشتے رحمتیں بھیج رہے ہوں اُسے کسی اور کی دُعائے رحمت کی کیا حاجت ہوسکتی ہے؟ دوسرے نمبر پربیان شدہ احادیث پر غور کرے کہ جن کے حق میں رحمت مانگنے سے دس دس مرتبہ رحمتوں سے فیضاب کیا جارہا ہے اُسے کیا حاجت ہوسکتی ہے؟تیسری اور اہم بات یہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے سر سے لے کر پاؤں تک عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے اُس ذات کو کسی بھی مخلوق کی محتاجی کیسے ہوسکتی ہے؟ بلکہ ساری مخلوقات کو اللہ کریم ان کے طفیل رحمتوں سے فیضاب فرما رہا ہے ،درود شریف کی تلاوت تو درحقیقت رحمتوں سے فیضیاب کرنے کا ذریعہ ہے۔

جیسے فرمانِ خداوندی ہے سورہ الانبیاء آیت نمبر۱۰۷ ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
’’اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کیلئے‘‘

میرے دوستو!حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دل و زبان اس قابل ہی نہیں کہ ہم حضورﷺکی ذات پر براہِ راست درود شریف بھیجیں بلکہ ہمارا تو درود شریف یہی ہے کہ ہم اللہ کریم کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ محمدﷺ اور ان کی آل پر درود بھیج ۔۔۔ ہماری یہ صدا بھی ایک سوالی کی صدا کی مانند ہے جو کسی مالدار کے دروازے پر کھڑا ہوکر یہ صدا لگاتا ہے کہ اللہ کریم تمھارے رزق میں اضافہ فرمائے اور تیرے گھر بار کی خیر ہو وغیرہ اُس کی اس صدا کا مطلب دُعا دینا نہیں بلکہ اپنے لیے کچھ مانگنا ہے جوکہ اُسے مل جاتا ہے عین اسی طرح جب ہم بھی اللہ کریم کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ اپنے محبوبﷺپر درود وسلام بھیج تو 
ہمیں بھی ایک کے بدلے دس دس اور ستر ستر رحمتوں سے مستفید کیا جاتا ہے۔
پھر دیکھیں کہ نماز حج روزہ قربانی وغیرہ حضورﷺکی عملی سنتیں ہیں اور حضورﷺ پر درود شریف پڑھنا رب تعالیٰ کی سنت ہے اگررب تعالیٰ کی کوئی مثل مثال نہیں 
ہے تو رب تعالیٰ کی سنت بھی لامثال ہے۔

 :لامثال ولازوال وظیفہ

میرے دوستو!نبی کریمﷺ کے اسمِ گرامی کا وظیفہ یعنی درود وسلام صرف لامثال ہی نہیں بلکہ لازوال بھی ہے وہ اس طرح کہ اللہ کریم کا نام لینے والی تمام مخلوق پر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب صورپھونکا جائے گا جس کے باعث سبھی آغوشِ موت میں چلے جائیں گے یعنی اللہ اللہ کرنے والے جب خود ہی نہیں ہوں گے تو اللہ اللہ کیسے کریں گے مگراُس وقت بھی حضورﷺ کا ذکر جاری وساری رہے گا کیونکہ ذکرِ حبیب اللہ ﷺ صرف انسان اور فرشتے ہی نہیں کررہے بلکہ خود خالقِ کائنات بھی کررہا ہے جو سونے، کھانے اور موت سے پاک ہے اس طرح ذکرِ نبی اللہﷺ بھی ہر حالت میں جاری وساری رہے گا،جس پر کوئی وقتِ مقرر کی قید نہیں ، کیونکہ 
بے شک اللہ اور اسکے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے(نبی)پراے ایمان والو ان پر درود اور
  خوب سلام بھیجو‘‘۔
سورہ الاحزاب،آیت نمبر۵۶

میرے دوستو! جہاں اللہ کریم نے یہ دعوت صرف ایمان والوں کو دی ہے وہاں ہی اس دعوت میں کوئی وقت کی قید نہیں لگائی ،جیسے اللہ تعالیٰ کی ہر عبادت کیلئے وقت کی پابندی شرط ہے ،نماز کے بھی اوقات ہیں ۔۔۔حج ورمضان کا بھی مخصوص مہینہ ہے،قربانی کا بھی دن مقرر ہے وغیرہ مگر جب اپنے حبیبﷺ پردرودوسلام پڑھنے کی بات آئی تو وقت کی ہر قید اُٹھا لی کیونکہ رب تعالیٰ پر کوئی وقت کی قید نہیں ہوسکتی اور اس کام کوخود رب تعالیٰ بھی کررہے ہیں بلکہ وقت کی ہرقید کو ہٹا کر درودشریف بھیجنے کا ذکر فرمایا ہے اور جب وقت کی قید اُٹھا لی جاتی ہے تو اس کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے اور وہ مطلب اس آیتِ کریمہ کے حوالے سے کیا بنتا ہے کہ اے ایمان والو ہمہ وقت میرے محبوب پر درود وسلام بھیجو، بلاشبہ یہ وظیفہء محبت ہے اور محبت کیلئے کسی وقت کی کوئی قید نہیں لگائی جاسکتی ، چاہے صبح درود شریف پڑھیں یا شام کو،رات کو پڑھیں یادن کو، کھڑے ہوکر پڑھیں یابیٹھ کر، اذان سے پہلے پڑھیں یا بعد میں ،ہر حالت میں پڑھیں مگر صرف اور صرف ایمان والے پڑھیں کیونکہ

بے شک اللہ اور اسکے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے(نبی)پراے یمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو‘‘۔
(سورہ الاحزاب،آیت نمبر۵۶)

: درود شریف کتنا مقرر کروں

ترمذی شریف بحوالہ مشکوٰۃ شریف جلد نمبر1،باب درودِ پاک،صفحہ217
روایت ہے حضرت ابی ابن کعبؓ سے،فرماتے ہیں،میں نے عرض کیا، یارسول اللہﷺمیں آپ پر بہت درود پڑھتا ہوں تو درود کتنا مقرر کروں،فرمایا کہ جتنا چاہو،میں نے کہا،چہارم،فرمایا کہ جتنا چاہو...اگر درود بڑھا دو تو تمھارے لیے بہتر ہے،میں نے کہا،ادھا،فرمایا کہ جتنا چاہو...اگر درود بڑھا دو تو تمھارے لیے بہتر ہے،میں نے کہا،دوتہائی،فرمایا کہ جتنا چاہو لیکن اگر درود بڑھا دو تو تمھارے لیے بہتر ہے،میں نے کہا کہ میں سارا درود ہی پڑھوں گا،فرمایا،تب تو تمھارے غموں کو کافی ہوگا اور تمھارے گناہ مٹا دے گا‘‘۔

ﷺﷺﷺ

 :قربت کا راز

ترمذی شریف بحوالہ مشکوٰۃ شریف جلد نمبر1،باب درودِ پاک،صفحہ216
حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ قیامت میں مجھ سے زیادہ قریب وہ ہوگاجومجھ پر زیادہ درود پڑھے گا۔

تیرے عشق توں دورُی دوزخ اے تیرا قُرب بہار بہشتی اے
لُوں لُوں وچ وَسدا جاندا اے تیرا پیار محمدؐ صَلّے علےٰ

 :دُعا روک دی جاتی ہے

ترمذی شریف بحوالہ مشکوٰۃ شریف جلد نمبر1،باب درودِ پاک،صفحہ219

حضرت عمرؓابن خطاب سے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ دُعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہری رہتی ہے،اس سے کوئی چیز نہیں چڑھتی حتیٰ کہ تم اپنے نبیﷺ پر درود بھیجو‘‘

تیری ہر ادا دا ناں خوبی پیدا حُسن نوں پاک وجود کیتا
کسے لامحدود دی شان والے تیری ذات تے حُسن محدود کیتا
تیرے جہیا شاہکار نہ کوئی پیدا اُس لا شریک معبود کیتا
سَنے رب ملائک عمرانؔ عاشق تحفہ پیش سلام درود کیتا

ان احادیثِ مبارکہ سے بھی واضح ہواکہ درود شریف پڑھنے سے اصل فائدہ ہمارا ہی ہے کیونکہ ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر اللہ تعالیٰ دس مرتبہ رحمتیں نازل فرماتا ہے اور دس گناہ مٹا دیتا ہے اور دس درجے بلندی عطا فرماتا ہے،اسی لیے رسول اللہﷺنے اپنے صحابی حضرت ابی ابن کعبؓ کے سوال کرنے پر بار بار فرمایا کہ اگر تم درود شریف کی تعداد بڑھا دو تو تمھارا اپنا اس میں فائدہ ہے...اور پھر آخر میں واضح طور پر فرما دیا کہ اگر تم تمام وقت درود شریف پڑھو گے تو یہ تمھارے غموں کو کافی ہے اور تمھارے تمام گناہ مٹادے گا،واضح ہوا کہ حضورﷺپر درود و سلام پڑھنے سے ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جاتی ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صرف اور صرف ایمان والوں کو درود شریف پڑھنے کی دعوت دی ہے اوردعوت بھی مطلق دی ہے جسمیں کسی قسم کی کوئی قید نہیں رکھی، یعنی جب بھی اللہ تعالیٰ کی سنت ادا کرتے ہوئے ہم درود شریف پڑھیں گے تو ہم پر رحمتوں کا نزول شروع ہوجائے گا اور ہمارے گناہ معاف ہونے لگیں گے اور درجات میں بلندی ہوگی،معلوم ہوا کہ حضورﷺ کو ہمارے درود کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں ضرورت ہے،اور حضرت عمرؓ کی روایت سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دُعاجوکہ تمام عبادت کا مغز ہے کیونکہ سرکارِ دوعالمﷺ نے فرمایا ہے ’’کہ دعا عبادت کا مغز ہے‘‘اور حضرت عمر فاروقؓ کی روایت بتا رہی ہے کہ عبادت کا مغز زمین اور آسمان کے درمیان روک دیا جاتا ہے اس سے کچھ اوپر نہیں چڑھتا، جب تک ہم اپنے آقا ومولاﷺ پر درود وسلام نہیں پڑھ لیتے،یعنی نام حضورﷺ کا لیا اور کام اپنا بن گیا،بلاشبہ درودوسلام بگڑے ہوئے کام اور چہرے سنوارتا ہے۔

تیرے کام کا بہانہ میرے کام آرہا ہے ،مجھے دید ہو رہی ہے میرا شام آرہا ہے

  :دُعا مانگنے کا طریقہ

ترمذی شریف بحوالہ مشکوٰۃ شریف جلد نمبر1،باب درودِ پاک،صفحہ217

حضرت ابن عبیدؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ تشریف فرماتھے کہ ایک آدمی آیا،اُس نے نمازپڑھی... پھر کہا،الہٰی!مجھے بخش دے اور رحم فرما،رسول اللہﷺ نے اُس سے فرمایا،اے نمازی!تو نے جلدی کی،جب تو نماز پڑھ کر بیٹھ جائے تو پہلے اللہ کی حمدبیان کر جس کے وہ لائق ہے اور مجھ پر درود بھیج پھر دُعا کر، فرماتے ہیں اس کے بعد ایک دوسرے شخص نے نماز پڑھی پھر اللہ کی حمد اور حضورﷺپر 
درود بھیجا تونبی کریمﷺنے فرمایا،اے نمازی!مانگ قبول ہوگی۔ 

(ابوداؤد،نسائی نے بھی اس کی مثل روایت کی ہے)

ترمذی شریف بحوالہ مشکوٰۃ شریف جلد نمبر1،باب درودِ پاک،صفحہ218

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور نبی کریمﷺ اور ابوبکرؓ وعمرؓ تشریف لائے،جب میں بیٹھاتو اللہ تعالیٰ کی حمد سے ابتدا کی پھر نبی کریمﷺپر درود شریف بھیجا پھر اپنے لیے دُعا کی تو نبی کریمﷺنے فرمایا، مانگ لے،دیا جائے گا،مانگ لے،دیا جائے گا۔
واضح ہوا کہ دُعا مانگنے کا صحیح اور قبولیت کا طریقہ یہی ہے کہ جب نماز پڑھ لی جائے تو پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی جائے اور پھر نبی کریمﷺپر درودوسلام بھیجا جائے،اسی لیے ایسا نہ کرنے والے شخص کو حضورﷺنے فرمایا کہ اے نمازی تم نے دُعا مانگنے میں جلدی کی اور پھر سکھایا کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کیا کر،پھر مجھ پر درود شریف بھیجا کر بعدازاں دُعا مانگا کر۔۔۔ اس طرح تیری دُعا قبول ہوگی ،جب ایک دوسرے شخص کو حضورﷺنے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور درود شریف پڑھ لینے کے بعد دُعامانگتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ اب دُعا مانگ تیری دُعا قبول کی جائے گی اور مانگ تجھے عطا کیا جائے گا۔

واقف کار بے شک خدا تیرا جانوں کوئی وی تیرے کمال دا نئیں
خاکِ قدم دی قسم قرآن اندر ایتھے حوصلہ کسِے سوال دا نئیں
تیری مثِل نہ رب بیان کیتی ممکن داخلہ کسِے مثال دا نئیں
عربی ماہی دی گَل عمرانؔ اُچی ثانی کوئی وی سوہنے بلالؓ دا نئیں

:بخیل ہے وہ شخص

ترمذی شریف بحوالہ مشکوٰۃ شریف جلد نمبر1،باب درودِ پاک،صفحہ218

حضرت علی المرتضیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا،بڑا بخیل ہے وہ شخص جس کے پاس میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔

 :اللہ اور فرشتوں کادرود شریف بھیجنا

مسند امام احمد بحوالہ مشکوٰۃ شریف جلد نمبر1،باب درودِ پاک،صفحہ218

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ جو نبی کریمﷺپر ایک بار درود پڑھے گا تو اس پر اللہ اور فرشتے ستر بار درود بھیجیں گے۔

محمد و احمد عاقب و ناصر حامد و قاسم اوّل و آخر
ظاہر و باطن جلوہ تیرا صلے علیٰ حق صلے علیٰ

 :درود شریف بھیجنے کا انعام

مسند امام احمد بحوالہ مشکوٰۃ شریف جلد نمبر1،باب درودِ پاک،صفحہ219

حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ مجھے جبرائیلؑ نے خوشخبری دی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپﷺسے فرماتا ہے جو آپ پر درود بھیجے گا،میں اس پر رحمت نازل کروں گا اور جو آپ پر سلام کہے گا،میں اس پر سلام بھیجوں گا۔بقول راقم

جو کثرتِ درُود و سلام ہو جائے
کیسے نہ قلب بیتُ الحرام ہو جائے
رضائے یزداں تو با خدا یہی ہے
کہ زندگانی محمدؐ کے نام ہو جائے

 :بگڑا چہرہ درست ہوگیا

حضرت سفیانؒ ثوری بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حج کے سلسلہ میں بیتُ اللہ شریف میں حاضر تھا،میں نے دورانِ طواف ایک نوجوان کو دیکھا جوبلند آواز سے مسلسل درود شریف پڑھ رہا تھا،میں نے اُس سے کہاکہ کیا تمھیں نہیں معلوم کہ یہاں تسبیح وتہلیل پڑھنی چاہیے؟یہ سوال سُن کر اُس نے مجھ سے بیان کیا، جناب! میں اور میرا والد دونوں مل کر فرائضِ حج کی ادائیگی کیلئے آرہے تھے کہ راستہ میں میرا والد یکایک بیمار ہوکر وفات پاگیا،میں سخت پریشان ہوا،جب میں نے قریب جاکر اپنے والد کے چہرہ کو دیکھا تو اُس کی شکل بگڑ چکی تھی،جس سے میں اور زیادہ پریشانی میں مبتلا ہوگیا،کسی کو امداد کیلئے بھی بلاتا تو کیا کہتا کہ اس مرنے والا کا چہرہ کس وجہ سے بگڑا ہے؟ چنانچہ میں اسی پریشانی کے عالم میں گریہ زاری کرنے لگاکہ اچانک میری آنکھ لگ گئی،میں نے خواب میں دیکھا کہ انتہائی خوبصورت گھوڑے پر ایک شخصیت سوار ہے جو سیدھے میرے والد کی میت کے پاس آئے اور انھوں نے گھوڑے سے اتر کر میرے والد کے چہرہ پراپنا انتہائی خوبصورت اور چمکدار ہاتھ پھیرا....پھر کیا ہوا، صاحبِ روح البیان تحریر فرماتے ہیں’’پس انھوں نے میرے والدکے چہرے سے کپڑا اٹھایا اور اپنا دستِ اقدس میرے والد کے چہرے پر پھیرا تو اُس کا چہرہ دودھ سے بھی زیادہ سفید ہوگیا ‘ ‘ ۔ 

میرے باپ دی آکے لاش اُتے چادر اُوس سوار اُٹھا دِتی
اُتے لاش دے پھیر کے ہتھ دونویں سوہنے چن دے وانگ چمکا دِتی
اُوہدے طاہر وجود دی مہک سوہنی ہر طرف خوشبو دُھما دِتی
کھَلاکول عمرانؔ حیران میں وی میری اُوس نے ہوش بُھلا دِتی

جب میں نے یہ دیکھا تو فوراً اُس شاہ سوار کے قدموں سے لپیٹ کر عرض گزار ہوا، اے مہربان!آپ کون ہیں؟جنہوں نے اس مشکل وقت میں میری امداد فرمائی ہے۔
’’توانہوں نے فرمایا،کیا تم مجھے نہیں جانتے؟میں محمداللہ کا رسولﷺہوں‘‘

مینوں تُوں پہچان دا نئیں بیٹا نال پیار دے شہسوار کہندا
میرا اسم محمد رسول اللہؐ جنہوں خاص محبوب ستار کہندا
ہرسُو اے جس دا بول بالا عرش فرش جنہوں اپنا یار کہندا
بڑی دُور عمرانؔ پرواز میری وَرَفَعْنَا پئیا غفار کہندا

بعدازاں انھوں نے یہ مہربانی کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا’’تیرا باپ دنیا میں مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرتا تھا‘‘۔
(روح البیان جلد۳)

اِیہہ سُن کے سخن مٹھاس والے مُکی خواب تے جاگ وی آئی مینوں
نال غور دے باپ دی لاش ویکھی ماری چمک اے حُسن صفائی مینوں
نور و نور حِسین جبین جُسہ دِسے رحمتاں دی روشنائی مینوں
رہسی یاد ہمیش عمرانؔ صابر لجپال دی کرم فرمائی مینوں

 :تاجرکا واقعہ

بغداد میں ایک بہت بڑا تاجر سکونت پذیر تھا،جسے تجارت میں مسلسل خسارہ کے باعث نہایت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا،بل آخر معاشی تنگی کے ساتھ ساتھ قرض کی مصیبت نے اُس بے چارے کا سکون برباد کر دیا،قرض لینے والے صبح و شام اُس سے مطالبہ کرتے اور وہ اُن کی منت وسماجت کرتا رہتا،ایک آدمی نے رقم واپس لینے کیلئے بہت زیادہ زور دیا،یہاں تک کہ اُس نے قاضی کی عدالت میں مقدمہ درج کرادیا،قاضی صاحب نے قرض دار کو عدالت میں طلب کیا...اور دریافت کیا کہ کیا تم نے اس آدمی سے قرض لیا ہوا ہے؟مقروض نے کہا جناب! میں نے قرض تو لیا ہوا ہے لیکن ابھی میرے پاس کچھ بھی نہیں جس سے قرض ادا کرسکوں،یہ سننے کے بعد قاضی نے حکم سنایا کہ یا تو تم اس کا قرض ادا کرو...یا پھر کوئی ضامن دو،وگرنہ جیل جانے کیلئے تیار ہوجاؤ،مقروض شخص کے پاس نہ تو کوئی رقم تھی اور نہ ہی کوئی اُس کی ضمانت دینے کو تیار تھا،بل آخر قاضی نے جیل بھیجنے کا حکم دیا،یہ سُن کرمقروض نے قرض خواہ کے آگے ہاتھ باندھ کر فریادیں کیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے نام پر صرف ایک شب اپنے بچوں میں گزارنے دو...صبح بے شک قید کروا دینا،اس بات پر قرض لینے والے نے کہا کہ میں تمھیں ایک رات کی مہلت تو دے دیتا ہوں مگر تم کوئی ضمانت دوکہ صبح تم حاضر ہوجاؤ گے،مقروض نے کہا،میرے ضامن مسکینوں کے غمخوار سرکارِ مدینہﷺ ہیں،قرض خواہ نے قبول کرلیا،چنانچہ مقروض گھر آگیا،جب بیوی نے اپنے خاوند کو پریشان حالت میں دیکھا تو وجہ دریافت کی،خاوند نے سارا حال سناتے ہوئے کہا کہ میں آج رات حضورنبی کریمﷺکو ضامن دے کر ایک رات کی مہلت پر گھر آیا ہوں۔ اُس کی نیک سیرت بیوی نے اپنے خاوند کوتسلی دیتے ہوئے کہا کہ جس کے ضامن سرکارِ مدینہﷺ ہوں اُس کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟لہٰذا اُس شخص نے اسی وقت وضو کیا اور مدینہ شریف کی جانب منہ کرکے درود وسلام پڑھنے لگا،اسی دوران اُس کی آنکھ لگ گئی اور خواب میں حضور نبی کریمﷺکی زیارت نصیب ہوئی،حضورﷺنے فرمایا،اے میرے امتی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں،تم صبح بادشاہِ وقت کے وزیر کے پاس جانا اور اُسے میرا سلام دینا...اورمیری طرف سے کہنا کہ وہ تمھارا پانچ صد دینار قرض ادا کرے ...اور اُسے بطور ثبوت بتانا کہ وہ روزانہ مجھ پر ایک ہزار مرتبہ درود شریف پڑھتا ہے کل اُسے درود شریف کی تعداد میں شک گزرا ہے کہ ہزار پورا پڑھا تھا یاکہ نہیں اُسے بتانا کہ اُس نے ہزار پورا پڑھا تھا،سرکار دوعالمﷺکا یہ ارشادِ مبارک سننے کے بعد آنکھ کھل گئی...اور خوشی سے گریہ زاری کرنے لگا، چنانچہ صبح سویرے وزیر صاحب کے دولت خانہ پر حاضر ہوا،اُس وقت وزیر صاحب کہیں جانے کیلئے اپنی سواری کی طرف آرہے تھے کہ اس شخص نے جا کر سلام دیا،وزیر صاحب نے جواب دینے کے بعد آنے کا مقصد دریافت کیا،اس نے کہا جناب!میں از خود نہیں آیا بلکہ آپ کی طرف بھیجا گیا ہوں، اور مجھے بھیجنے والے اللہ تعالیٰ کے محبوبﷺہیں،واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ میں ایک مقروض آدمی ہوں ،کل میں ایک رات کیلئے حضورﷺ کو ضامن دے کر گھر آیا تھا،رات مجھے سرکارﷺکی زیارت نصیب ہوئی انھوں نے فرمایا کہ صبح تم وزیر کے پاس جانا اور میرا سلام کہنا اور میری طرف سے پیغام دینا کہ وہ تمھارا پانچ صد دینار قرض ادا کرے اور حضورﷺ نے پیغام کی صداقت کیلئے یہ نشانی بتائی ہے کہ آپ روزانہ ایک ہزار دفعہ درود شریف پڑھتے ہیں ،کل آپ کو غلط فہمی ہوئی تھی کہ میں نے ہزار پورا کیا ہے یاکہ نہیں ،حضورﷺنے فرمایاہے کہ آپ نے ہزار دفعہ پورا درود شریف پڑھا تھا،جب وزیر صاحب نے یہ سنا تو فوراً اس شخص کو گھر لے آئے اور نہایت عزت کے ساتھ بٹھایا اور کہا کہ مجھے دوبارہ سرکار دوعالمﷺکا پیغام اور سلام دیجئے گا،لہٰذا دوبارہ سننے کے بعد وزیر صاحب نے اُس شخص کی دونوں آنکھوں کے درمیان محبت سے بوسہ دیا کہ تم نے ان آنکھوں سے حضورﷺ کی زیارت کی ہے اور مجھے سچا خواب سنایاہے کیونکہ میرے درود شریف پڑھنے اور اس غلط فہمی کے متعلق کسی شخص کو علم نہیں تھا،کئی دفعہ وزیر صاحب نے خواب سننے کے بعد پانچ صد دینار دیتے ہوئے کہا کہ اس رقم سے اپنا قرض ادا کیجئے گا،اور مزید پانچ صد دینار دئیے کہ یہ آپ کے بچوں کیلئے ہیں بعدازاں پانچ صد دینار گھروالوں کیلئے دئیے اور آخر میں پانچ صد دینار دیتے ہوئے کہا ،یہ آپ کیلئے ہیں کہ آپ نے مجھے میرے آقاﷺکا پیغام اورسلام پہنچایا ہے، مقروض یہ رقم لے کر گھر آیا اور اُن میں سے پانچ صد دینار ساتھ لیے اور قاضی صاحب کی عدالت میں پہنچ گیا،قرض لینے والا شخص بھی ہمراہ تھاجب قاضی صاحب نے مقروض کو دیکھا تو اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور اپنی جیب سے پانچ صد دینار نکالتے ہوئے کہا کہ مجھے آج رات تمھاری وجہ سے سرکارِ دوعالمﷺ کی زیارت نصیب ہوئی ہے اور حضورﷺنے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھارا قرض ادا کرؤں،لہٰذا یہ رقم حاضر ہے،قرض لینے والے آدمی نے کہا کہ میں نے اس کا قرض معاف کردیا ہے اور اپنی طرف سے اسے پانچ صد دینارہدیہ پیش کرتا ہوں کیونکہ آج شب مجھے بھی سرکارِ مدینہﷺ نے یہی حکم فرمایا ہے کہ تم اس کا قرض معاف کردو،لہٰذا میں نے قرض بھی معاف کیا اورپانچ صد دینار نذرانہ پیش کرتا ہوں۔
(سعادتِ دارین)

اس واقعہ کے مطابق ایک مستند فرمانِ نبویﷺملاحظہ ہو۔
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا کہ کوئی مومن ایسا نہیں کہ دنیا اور آخرت میں جس کی جان کا میں اس سے زیادہ مالک نہ ہوں اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو’’نبی(ﷺ)مومنوں کا اُن کی جان سے زیادہ مالک ہے‘‘ پس جوبھی مومن مال چھوڑے تو اس کے رشتہ دار ہی میراث پائیں گے لیکن اگر اس کے سر پر قرض ہے یاکسی کا مال ضائع کیا تھا تو وہ میرے پاس آئے کیونکہ اس کا ذمہ دار میں ہوں‘‘۔

(صحیح بخاری شریف جلد2حدیث نمبر1891 صفحہ915)

ایساخالق نے خلقیا یار اپنا چھوڑی مثل نہ کوئی جہان اُتے
گَل آخری یار دے ناں کیتی سارے حرف محفوظ قرآن اُتے
کیڈی عزت انسان دی بن گئی اے عرش فرش زمیں اَسمان اُتے
شاناں ختم عمرانؔ رحمٰن دی سونہہ شہنشاہ محمد دی شان اُتے

 :دوزخی لڑکی جنت میں

ایک عورت نے حضرت خواجہ حسن بصری ؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ عالی جاہ!میری ایک بیٹی جوکہ فوت ہو چکی ہے، میں چاہتی ہوں کہ اسے خواب میں دیکھوں ...حضرت حسنؒ نے ایک وظیفہ عطا فرمایا کہ آج شب بعد ازنمازِ عشاء ؒ یہ وظیفہ کرنا اور باوضو حالت میں سو جانا...لہٰذا اس عورت نے ایسا ہی کیا۔ رات سوگئی تو اس نے اپنی بیٹی کو اس حال میں دیکھا کہ وہ عذابِ خداوندی میں گرفتارہے،گندھک کا لباس ،ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں ہیں۔ جب ماں نے اپنی بیٹی کو سخت عذاب میں دیکھا تو تڑپ اٹھی اور صبح حضرت حسن بصریؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر رات والا سارا واقعہ(خواب) بیان کردیا۔آپؒ نے فرمایا کہ جاکر اپنی بیٹی کے لیے کچھ صدقہ وخیرات کرو،اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمادے گا۔
اس کے چند دن بعد حضرت حسنؒ نے ایک خواب دیکھا کہ جنتی باغوں میں سے ایک باغ ہے جس میں ایک مرصّع تخت بچھا ہوا ہے اور اس پر ایک لڑکی نورانی تاج پہنے ہوئے بیٹھی ہے۔

فقالت یا حسنُ اتعرفُنی---القول البدیع
تو اس نے کہا کہ اے حسنؒ تم مجھے پہچانتے ہو؟ 

آپؒ نے فرمایا ،میں نے تجھے نہیں پہچاناتم خود ہی بتاؤ کہ تم کون ہو ؟تو اس نے عرض کی حضور!میں وہی ہوں جس کی ماں آپکے پاس حاضر ہوئی تھی ۔آپؒ نے فرمایا، بیٹی تیری ماں نے جو تیری حالت ہم سے بیان کی تھی کیا وہ غلط تھی؟اس پر اس لڑکی نے کہا،عالیجاہ!میری ماں نے جو میری حالت آپ کی خدمت میں بیان کی تھی،وہ بالکل سچ تھی۔۔۔ میری ماں نے جب مجھے خواب میں دیکھا تھا،میں واقعی سخت عذاب میں مبتلا تھی،آپؒ نے فرمایا،بیٹی !پھر تجھے عذاب سے کیسے نجات حاصل ہوئی ؟اُس نے عرض کی حضور ہمارے قبرستان کے قریب سے ایک ولیِ کامل کا گزر ہوا جو بآواز بلند حضور نبی کریمﷺ کی ذاتِ مقدس پر درود شریف بھیج رہے تھے ،پس اُن کے درودپاک پڑھنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ستّر ہزار وہ لوگ جنکو عذاب ہو رہا تھا ،معاف فرما کر جنت عطا کردی ہے۔
اسی لیے میرے دوستو رب تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

بے شک اللہ اور اسکے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے(نبی)پراے یمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو‘‘۔
(سورہ الاحزاب،آیت نمبر۵۶)

آخرمیں دُعاہے کہ اللہ کریم اپنے محبوبﷺکے تصدق اور انعام یافتہ بندوں کے طفیل اس پیغامِ حق پر عمل کرنے کی اور اس پیغامِ حق کو آگے پھیلاکر دوسرے مسلمان بھائیوں کی بھلائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

امین امین امین

قبر وچ سوال تے تِن ہوسن وچوں اِک سوال نجات دا اے 
پہلے رب تے دین دی گل ہوسی سارا زور پر اگلی بات دا اے
نہ کوئی علم کلام دی گل اَگے نہ کوئی ذکر نماز زکوٰۃ دا اے
ہوسی بَری عمرانؔ جمال پاندا جانو جو محمد دی ذات دا اے
ﷺﷺﷺ
تیرے آئیاں توحید دا پتہ لگا تیری ذات ثبوت خدا دا اے
اَگے کون خدا نوں جاندا سی ہن تے ورد ہی لا الہ دا اے
عزیٰ لات منات نابود ہوئے جلوہ ویکھ کے پاک بقا دا اے
نعرے اُس دے مار عمرانؔ اُچے سارا کرم اِیہہ جہدی نگاہ دا اے
ﷺﷺﷺ
ﷺﷺﷺ

No comments:

Post a Comment

آمدو رفت