Mymenu

Pages

Waseela Ki Haqeeqat

وسیلہ کیا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ کیا وسیلہ دینا اور وسیلہ سے دعا مانگنا جائز ہے؟ یہ قرآن اور حدیث سے کیسے ثابت ہے؟

حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تقسیم فرمانے والے ہیں۔
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 71
حضرت ابن ابو سفیانؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سوجھ بوجھ عطا فرماتا ہے بے شک میں تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔

تفصیل
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ دین کی سوجھ بوجھ اسی کو عطا فرمایا ہے جس کی بھلائی منظور ہوتی ہے۔ فقہ سے چڑنا گویا خود کو بھلائی سے محروم رکھنا ہے۔ اور آگے فرمایا کہ ہر چیز کا عطا فرمانے والا اللہ اتعالیٰ ہے کیونکہ وہی مالک ہے اور یہ نعمتیں بانٹنے والا اسی مالک کی ذات نے رحمتِ عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کوبنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتیں دستِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے تقسیم ہو رہی ہیں۔ جب حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت ختم ہے تو آج بھی امت کو خیرات کی اسی طرح ضرورت ہے جیسے پہلے زمانوں میں ۔ آج بھی ان کی بنوت کا تاج سلامت ہے اور بلاشبہ انھیں کی تقسیم سے راج کئے جا رہے ہیں۔

وسیلہ سے نمازیں کم ہوئیں۔
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 339
ترجمہ:
اس حدیث کے راوی حضرت ابوذرؓ ہیں اور نمازوں سے متعلق حصہ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، پس اﷲتعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، میں اس کے ساتھ لوٹا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا، اُنھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آ پ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی امت کیلئے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پچاس نمازیں، انھوں نے کہا کہ اپنے رب کی طرف واپس جایئے کیونکہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں یہ طاقت نہیں ہے، میں واپس لوٹا تو ان کا ایک حصہ کم کردیا گیا، میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف لوٹا اور کہا کہ ایک حصہ کم کردیا گیا ہے۔، انھوں نے کہا کہ اپنے رب کی طرف پھر جایئے کیونکہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں اِن کی طاقت نہیں ہے پس میں واپس گیا تو ایک حصہ مزید کم کر دیا گیا، میں ان کی طرف آیا تو انھوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کی طرف جایئے کیو نکہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں ان کی طاقت بھی نہیں ہے، میں واپس لوٹا تو فرمایا کہ یہ پانچ رہ گئیں اور یہی پچاس ہیں۔

تفصیل:
اس حدیث پاک سے واضح ہے کہ نمازوں کا اصل تحفہ پچاس تھا مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے پچاس کی جگہ پانچ رہ گئیں یعنی جو پانچ اداکرے گا اسے ثواب پچاس ہی کہ ملے گا، اب جو انبیاءکرام واولیا کرام کے وسیلہ کے قائل ہی نہیں، انصاف کی بات ہے کہ ان کو وسیلے سے کم ہونے والی نمازیں پڑھنے کا حق نہیں بنتا بلکہ پوری پچاس ادا کرنی چاہئے، واضح ہے کہ اس متعلق اﷲتعالیٰ و رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم دونوں ہی نے وسیلہ پسند فرمایا اور وسیلہ بھی ان کا جن کے متعلق حضو ر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے حضرت موسیٰ عیلہ السلام کو دیکھا کہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ یعنی قبر والے کا وسیلہ آسمانوں پر نمازوں کی کمی کا باعث بنا، اہلِ ذکر فرماتے ہیں دراصل اﷲتعالیٰ و رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے مخفی نہیں تھا کہ پچاس کی جگہ پانچ رہ جائیں گی مگر یہاں حضو ر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمحضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے اﷲتعالیٰ کے دیدار کا وسیلہ بنے، جب اﷲتعالیٰ کی زیارت سے مستفید ہو کر آتے تو موسیٰ علیہ السلام راستہ میں بیٹھے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو دیکھ کر لذتِ جمال سے فیضیاب ہوتے۔

خزانوں کی کنجیاں
بخاری شریف جلد نمبر 2حدیث نمبر 229
حضرت ابو ہریر ہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ایک روز جبکہ میں سورہا تھا تو میرے پاس زمین کے خزانوں کی کنجیاں لائی گئیں اور میرے ہاتھ میں دے دی گئی۔

تفصیل
معلو م ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں اپنے محبوب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کوعطا فرما دی ہیں یعنی اس دارالعمل سے جس کو جو کچھ ملے گا وہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہی کی مرضی اور عطا سے حاصل ہو گا، زمین کے بسنے والے تمام ذی روح حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہی کے سائل اور محتاج ہیں چاہے کوئی مانے یا نہ مانے، کوئی حلال کر کے کھائے یا حرام کر کے۔ کوئی شکر ادا کرکے کھائے یا نا شکری کر کے، مگر ملتا سبھی کو اسی سرکار صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ہے۔

مزید حوالے
ترمذی شریف بحوالہ مشکوٰة شریف جلد 1باب درود پاک صفحہ 219
ترمذی شریف بحوالہ مشکوٰة شریف جلد 1باب درود پاک صفحہ217
ترمذی شریف بحوالہ مشکوٰة شریف جلد 1باب درود پاک صفحہ217

وسیلہ سے دعا مانگنا
بخاری شریف جلد نمبر 2حدیث نمبر 907
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب لوگ قحط سے دوچار ہوتے تو حضرت عمرؓ بن خطاب ہمیشہ حضرت عباس ؓ بن عبد المطلب کے وسیلے سے بارش کی دعا کرتے، وہ کہا کرتے ، اے اللہ ! ہم تیرے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے بارش مانگا کرتے تھے، اور اب ہم تیری بارگاہ میںاپنے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے محترم چچا کو وسیلہ بناتے ہیں، پس ہم پر بارش برسا، راوی کا بیان ہے کہ بارش ہو جاتی۔

تفصیل
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم و اولیائے کرام کا وسیلہ پیش کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ عمل حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے روشن ستاروں کی سنت ہے۔ لہذا اپنی دعاﺅں کو قبولیت کے مقام پر فائز کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کا وسیلہ اختیار کرتے رہنا چاہیے۔

حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے دعا کرنا۔
جامع ترمذی، ابواب الدعوت، باب فی انتظار الفرج 197/2
حضرت عثمان بن حنیف ؓ فرماتے ہیں کہ ایک نابینا آدمی بارگاہِ رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں عرض گزار ہوا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم رب تعالیٰ سے میری آنکھوں کے لیے دعا فرمائیں؟ پس حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو چاہے تو میں دعا کرتا ہوں اور اگر تو صبر کو پسند کرے تو تیرے لیے بہتر ہے، پس انھوں نے عرض کیا، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم دعا فرما دیں۔ تو حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تو اچھے طریقے سے وضو کر کے یہ دعا پڑھ، اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ اے محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہوں کہ میری حاجت پوری ہوجائے، اے اللہ ! میرے حق میں یہ سفارش قبول فرمالے۔

تفصیل
اس حدیث پاک سے معلو م ہوا کہ خود نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابی ؓ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ اختیار کرنے کی تعلیم فرمائی۔ جس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا کوئی بدعت یا شرک نہیں بلکہ عین اللہ تعالیٰ و رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مرضی کے مطابق ہے اور ایسا کرنا صحابہ ؓ کی سنت ہے ورنہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابی ؓ کی اس طرح کیوں تلقین فرماتے۔

تمام بنی آدم کے سلطان
بخاری شریف جلد2حدیث نمبر 566
بخاری شریف جلد2حدیث نمبر 1823
بخاری شریف جلد2حدیث نمبر 593
بخاری شریف جلد3حدیث نمبر 1482
حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گوشت (بھنا ہوا) لایا گیا چنانچہ ایک دستی اٹھا کر آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے لیے پیش کی گئی کیونکہ دستی کا گوشت آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کو بہت پسند تھا، پس آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے اس میں سے تناول فرمایا اور اسکے بعد ارشاد ہوا کہ قیامت کے روز سب لوگوں کا سردار میں ہوں، کیا تم اسکی وجہ جانتے ہو؟ سنو! اگلے پچھلے سارے انسانوں کو ایک ہی میدان میں جمع کر لیا جائے گا۔ جو ایسا ہوگا کہ پکارنے والے کی آواز سن سکیں گے اور سب کو دیکھ سکیں گے اور سورج لوگوں کے اتنا قریب آجائے گا کہ گرمی کی شدت سے تڑپنے لگیں گے اور وہ ناقابلِ براشت ہو جائے گی تو لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ کیا تم اپنی حالت نہیں دیکھتے؟ پھر تم ایسی ہستی کو تلاش کیوں نہیں کرتے جو تمھارے رب کے پاس تمھاری شفاعت کرے؟ چنانچہ لوگ دوسروں سے کہیں گے کہ تمھیں حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں جانا چاہیئے، پس وہ حضرت آدم علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ آپ علیہ السلام تمام انسانوں کے باپ ہیں، آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دستِ خاص سے بنایا ہے آپ علیہ السلام کے اندر اس نے اپنی جانب کی روح پھونکی تھی اور اس نے فرشتوں کا حکم فرمایا تو انہوں نے آپ علیہ السلام کے لیے سجدہ کیا تھا۔ لہذا اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمایئے، کیا آپ علیہ السلام دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال کو پہنچ گئے ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام فرمائیں گے کہ آج میرے رب نے غضب کا ایسا اظہار فرمایا ہے کہ ایسا نہ اس کے پہلے کبھی فرمایا اور نہ اس کے بعد کبھی ایسا فرمائے گا۔ تم کسی دوسرے کے پاس جاﺅ، تم حضرت نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاﺅ۔ پس وہ حضرت نوح علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کریں گے ، اے حضرت نوح علیہ السلام ! آپ علیہ السلام زمین والوں کی طرف سب سے پہلے آنے والے رسول تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو عبد اشکور کا نام دیا تھا۔ آپ علیہ السلام اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیے۔ آپ علیہ السلام دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ گئے ہیں؟ وہ ان سے فرمائیں گے کہ آج میرے رب عزوجل نے غضب کا وہ اظہار فرمایا ہے کہ نہ کبھی اس سے پہلے ایسا اظہار فرمایا اور نہ کبھی اس کے بعد ایسا اظہار فرمائے گا۔ تم کسی دوسرے کے پاس جاﺅ۔ تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاﺅ، پس لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے، اے حضرت ابراہیم علیہ السلام ! آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی اور زمین والوں میں اس کے خلیل ہیں، آپ علیہ السلام اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیں۔ کیا آپ علیہ السلام دیکھتے نہیں کہ ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں؟ وہ ان لوگوں سے فرمائیں گے کہ بیشک میرے رب نے غضب کا آج ایسا اظہار فرمایا کہ کہ نہ اس پہلے کبھی ایسا کیا اور نہ کبھی اس کے بعد ایسا کرے گا، تم کسی دوسرے کے پاس جاﺅ۔ تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاﺅ۔ پس لوگ حضرت موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے، اے حضرت موسیٰ علیہ السلام ! آپ علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو رسالت اور ہمکلامی کے ساتھ دوسرے انبیاءکرام پر فضیلت دی تھی۔ آپ علیہ السلام اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیں۔ کیا آپ علیہ السلام دیکھتے نہیں کہ ہم کس مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں؟ وہ فرمائیں گے کہ میرے رب نے آج غضب کا ایسا اظہار فرمایا ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی ایسا کیا اور نہ ہی بعد میں کبھی ایسا کرے گا۔ تم کسی اور کے پاس جاﺅ۔ تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاﺅ۔ چنانچہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے ، اے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ! آپ علیہ السلام اللہ کے رسول اور اس کاایک کلمہ ہیں جو اس نے حضرت مریم علیہ السلام کی جانب القا فرمایا ہے نیز آپ علیہ السلام اس کی جانب کی روح ہیں اور آپ علیہ السلام نے پنگوڑے کے اندر لوگوں سے باتیں کی تھیں لہذا آپ علیہ السلام ہماری شفاعت فرمائیں ۔ کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کس حال کو پہنچ گئے ہیں؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ میرے رب نے آج غضب کا ایسا اظہار فرمایا ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی ایسا کیا اور نہ ہی بعد میں کبھی ایسا کرے گا۔ تم کسی اور کے پاس جاﺅ۔ ارے تم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور جاﺅ۔ چنانچہ لوگ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوگے، اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول اور انبیائے کرام میں سب سے آخری ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف فرما دیئے تھے لہذا اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمایئے، کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ ہم کس حال کو پہنچ گئے ہیں؟ پس میں ( یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کام کے لیے چل پڑوں گا اور عرشِ عظیم کے نیچے آکر اپنے رب عزوجل کے حضور سجدہ ریز ہو جاﺅں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پرایسی حمدیں اور حسنِ ثناءظاہر فرمائے گا جو مجھ سے پہلے کسی پر ظاہر نہیں فرمائی ہونگی، پھر مجھ سے فرمایا جائے گا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا سر اٹھاﺅ ، مانگو کہ تمھیں دیا جائے گا۔ شفاعت کرو کہ تمھاری شفاعت قبول فرمائی جائے گی۔ پس میں اپنا سر اٹھا کر عرض کرونگا، اے رب! میری امت، پس فرمایا جائے گا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کے ان لوگوں کو جن کا ہم نے حساب نہیں لینا ”باب الایمن“ سے جنت میں داخل کردو۔

اسی جلد کی ایک روایت جو کہ حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ آخری الفاظ اس طرح ہیں ۔ ”پھر میں (یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا سر اٹھاﺅں گا اور اللہ تعالیٰ کی ایسی حمدیں بیان کروں گا جنکی مجھے تعلیم فرمائی جائے گی۔ پھر شفاعت کروں گا، جسکی میرے لیے ایک حد مقرر فرما دی جائے گی۔ تو میں ایک گروہ کو جنت میں داخل کر کے واپس لوٹ آﺅ ں گا۔ پھر میںاپنے رب کو دیکھ کر حسبِ سابق کروں گا۔ حکم ہوگا شفاعت کرو اور میرے لیے ایک حد مقرر فرما دی جائے گی تو میں دوسرے گروہ کو جنت میں داخل کر کے واپس لوٹ آﺅں گا۔ پھر تیسری دفعہ اسی طرح واپس آﺅں گا، پھر چوتھی دفعہ اسی طرح واپس لوٹوں گا۔“

مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ بروزِ قیامت تمام بنی آدم کے سردار و سلطان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ دوسری اہم بات ، لوگ اس دنیا میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی نبی یا ولی سے مدد منگنی جائز نہیں بلکہ یہ شرک ہے، مذکورہ مستند فرمان بتارہے ہیں کہ جس روز قیامت برپا ہوگی اور خدا تعالیٰ خود سامنے موجود ہوں گے اس وقت بھی لوگ براہ راست اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرنے کی ہر گز جرات نہ کر سکیں گے بلکہ وسیلہ تلاش کریں گے بل آخر بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشکل کشائی ہوگی۔ اور حاجت روائی ہوگی۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احسان اور عطا کے بغیر کام نہیں بنے گا۔ یعنی ہم دونوں جہانوں میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سائل ہیں اور ان کی عطاﺅں کے محتاج ہیں۔

No comments:

Post a Comment

آمدو رفت