Mymenu

Pages

Shan-e-Mustafa (SAWW)

شانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

محفل میں بیٹھنے کے آداب
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 66
حضرت ابو واقد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم مسجد میں جلوہ افروز تھے اور صحابہ کرام ؓ جیسے پروانوں نے آپ کو جھرمٹ میں لیا ہو ا تھا کہ تین آدمی آگئے، دو رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آگئے اور ایک چلا گیا یہ دونوں رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ٹھہرے کہ ان میں سے ایک نے مجلس میںخالی جگہ دیکھی اور وہاں بیٹھ گیا، دوسرا لوگوں کے پیچھے بیٹھ گیا جبکہ تیسرا پیٹھ پھیر کر چلا گیا، جب رسول اللہ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کیا میں تمھیں ان تینوں شخصوں کا حال نہ بتاﺅں؟ ان میں سے ایک اللہ کی طرف آیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے جگہ دے دی، دوسرے نے حیا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس سے حیا فرمائی اور تیسرے نے منہ پھیرا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے منہ پھیر لیا۔

تفصیل
معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی طرف آنا دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف آنا ہے اور رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی طرف سے منہ پھیرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے منہ پھیرنا ہے اور رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی نزدیکی رب تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے چاہے محفل کے آخری کنارے پر ہی جگہ ملے۔

سب سے پہلے اور آخری
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 66
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہم ہی سب میں آخری اور سب سے پہلے ہیں۔

جنت کا باغ
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 1116
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 1117
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، میرے کاشانہءاقدس اور میرے منبر کا درمیانی حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔

حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی مثل نہیں
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 1794
بخاری شریف جلد نمبر3حدیث نمبر 2105
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے وصال کے روزے رکھ تو لوگوں نے بھی رکھے انھیں تنگی ہوئی تو آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے انھیں منع فرمایا، عرض گزار ہوئے کہ آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم تو رکھتے ہیں، فرمایا کہ میں تمھاری مثل نہیں ہوں، مجھے کھلایا پلایا جاتا ہے۔

تفصیل
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی کوئی مثل اور مثال نہیں ہے بعض لوگ چند ظاہر داری کی باتیں موضوع بنا کر برابری کے دعوے کھڑے کر دیتے ہیں جن سے ان کے جملہ اعمال نیست و نا بود کر دیئے جاتے ہیں۔ ان کو یہ تو نظر آتا ہے کہ ہماری طرح حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے بھی دو ہاتھ تھے مگر یہ دکھائی نہیں دیتا کہ حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں سے پانی کے چشمے جاری ہوتے اور ان ہاتھوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ قرار دیتا ہے۔ اسی طرح ان کو دو پاﺅں تودکھائی دیتے ہیں مگر یہ دکھائی نہیں دیتا کہ رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم کی اللہ تعالیٰ قرآن میں قسم اٹھاتا ہے۔ اسی لیے آقا صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی میری مثل نہیں۔

اُستنِ حنانہ
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 1955
بخاری شریف جلد نمبر2حدیث نمبر 792
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انصار کی ایک عورت رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئی کہ یا رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم ! کیا میں آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے لیے ایسی چیز نہ بنا دوںجس پر آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم بیٹھا کریں کیو نکہ میرا ایک غلام بڑھئی ہے۔ فرمایا اگر تم چاہو۔ پس آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے لیے منبر بنا دیا گیا جب جمعہ کے روز نبی کریم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم اس منبر پر جلوہ افروز ہوئے جو آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے لیے بنایا گیا تھا تو کھجور کی وہ لکڑی چیخنے لگی جس کے پاس آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم خطبہ دیا کرتے تھے اور قریب تھا کہ وہ پھٹ جاتی۔۔۔ پس نبی کریم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نیچے اترے اور اسے لے کر سینے سے لگا لیا۔ وہ لکڑی بچے کی طرح روئی جس کو چپ کرایا جاتا ہے۔ یہاں تک کے اسے قرار آگیا۔

تفصیل
منبر بننے سے پہلے حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کجھور کی جس خشک لکڑی کے ساتھ پشت لگا کر (ٹیک لگا کر) خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، جب علیہد منبر بن گیا تو حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم اس پر خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے بیٹھے لیکن کجھور کی وہ خشک لکڑی جس کو آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی پشت لگنے کی وجہ سے صرف زندگی ہی نہیں بلکہ حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی محبت سے قوتِ گویائی بھی حاصل ہو گئی۔ اس نے سرکار صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے فراق میں چیخنا شروع کردیا جس کی آواز وہاں موجود تمام صحابہ ؓ نے سُنی۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ یوں محسوس ہوا کہ یہ عنقریب پھٹ جائے گی۔ مگر حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے اس اُستنِ حنانہ کو قریب جا کر سینے سے لگا لیا جس سے اسے قرار آگیا۔

توریت میں حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی تعریف
بخاری شریف جلد 1حدیث نمبر 1982
عطا ءبن یسار سے روایت ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے ملا اور عرض گزار ہوا کہ مجھے رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی وہ تعریف بتائیے جو توریت میں ہو۔ فرمایا کہ خدا کی قسم ! توریت میں بھی آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی بعض وہ صفات بیاب ہوئی ہیں جو قرآن مجید میں ہیں، یعنی اے نبی صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم ! بے شک ہم نے آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کوبھیجاہے گواہ بنا کر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور اَن پڑھوں کی جائے پناہ، تم میرے بندے اور میرے رسول ہو، میں نے تمھارا نام متوکل رکھا ہے کہ ترش رو، سنگ دل اور بازاروں میں شور مچانے والے نہیں ہو اور برائی کا بدل برائی سے نہیں دیتے ہو بلکہ معاف اور درگذر کرتے ہو۔

تفصیل
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے توریت اور دیگر کتب سابقہ میں بھی اپنے محبوب صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی تعریفیں بیان کی ہیں۔ سابقہ انبیائے کرام سے بھی اپنے محبوب صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی تعریف کے خطبے پڑھوائے اور اپنی اپنی امتوں کے سامنے چرچے کروائے۔ حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے اوصاف بیان کرنا اللہ تعالیٰ کا اپنا طریقہ ہے اور اسی میں رب تعالیٰ کی خوشنودی ہے اسی لیے سابقہ انبیاءکرام نے بھی حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی تعریف بیان کر کے اللہ تعالیٰ کو راضی کیا۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے اوصاف بیان کرنے کی ہمیشہ توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

تمام بنی آدم کے سلطان
بخاری شریف جلد2حدیث نمبر 566
بخاری شریف جلد2حدیث نمبر 1823
بخاری شریف جلد2حدیث نمبر 593
بخاری شریف جلد3حدیث نمبر 1482
حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گوشت (بھنا ہوا) لایا گیا چنانچہ ایک دستی اٹھا کر آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے لیے پیش کی گئی کیونکہ دستی کا گوشت آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کو بہت پسند تھا، پس آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے اس میں سے تناول فرمایا اور اسکے بعد ارشاد ہوا کہ قیامت کے روز سب لوگوں کا سردار میں ہوں، کیا تم اسکی وجہ جانتے ہو؟ سنو! اگلے پچھلے سارے انسانوں کو ایک ہی میدان میں جمع کر لیا جائے گا۔ جو ایسا ہوگا کہ پکارنے والے کی آواز سن سکیں گے اور سب کو دیکھ سکیں گے اور سورج لوگوں کے اتنا قریب آجائے گا کہ گرمی کی شدت سے تڑپنے لگیں گے اور وہ ناقابلِ براشت ہو جائے گی تو لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ کیا تم اپنی حالت نہیں دیکھتے؟ پھر تم ایسی ہستی کو تلاش کیوں نہیں کرتے جو تمھارے رب کے پاس تمھاری شفاعت کرے؟ چنانچہ لوگ دوسروں سے کہیں گے کہ تمھیں حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں جانا چاہیئے، پس وہ حضرت آدم علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ آپ علیہ السلام تمام انسانوں کے باپ ہیں، آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دستِ خاص سے بنایا ہے آپ علیہ السلام کے اندر اس نے اپنی جانب کی روح پھونکی تھی اور اس نے فرشتوں کا حکم فرمایا تو انہوں نے آپ علیہ السلام کے لیے سجدہ کیا تھا۔ لہذا اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمایئے، کیا آپ علیہ السلام دیکھتے نہیں کہ ہم کس حال کو پہنچ گئے ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام فرمائیں گے کہ آج میرے رب نے غضب کا ایسا اظہار فرمایا ہے کہ ایسا نہ اس کے پہلے کبھی فرمایا اور نہ اس کے بعد کبھی ایسا فرمائے گا۔ تم کسی دوسرے کے پاس جاﺅ، تم حضرت نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاﺅ۔ پس وہ حضرت نوح علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کریں گے ، اے حضرت نوح علیہ السلام ! آپ علیہ السلام زمین والوں کی طرف سب سے پہلے آنے والے رسول تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو عبد اشکور کا نام دیا تھا۔ آپ علیہ السلام اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیے۔ آپ علیہ السلام دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ گئے ہیں؟ وہ ان سے فرمائیں گے کہ آج میرے رب عزوجل نے غضب کا وہ اظہار فرمایا ہے کہ نہ کبھی اس سے پہلے ایسا اظہار فرمایا اور نہ کبھی اس کے بعد ایسا اظہار فرمائے گا۔ تم کسی دوسرے کے پاس جاﺅ۔ تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاﺅ، پس لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے، اے حضرت ابراہیم علیہ السلام ! آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی اور زمین والوں میں اس کے خلیل ہیں، آپ علیہ السلام اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیں۔ کیا آپ علیہ السلام دیکھتے نہیں کہ ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں؟ وہ ان لوگوں سے فرمائیں گے کہ بیشک میرے رب نے غضب کا آج ایسا اظہار فرمایا کہ کہ نہ اس پہلے کبھی ایسا کیا اور نہ کبھی اس کے بعد ایسا کرے گا، تم کسی دوسرے کے پاس جاﺅ۔ تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاﺅ۔ پس لوگ حضرت موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے، اے حضرت موسیٰ علیہ السلام ! آپ علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو رسالت اور ہمکلامی کے ساتھ دوسرے انبیاءکرام پر فضیلت دی تھی۔ آپ علیہ السلام اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیں۔ کیا آپ علیہ السلام دیکھتے نہیں کہ ہم کس مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں؟ وہ فرمائیں گے کہ میرے رب نے آج غضب کا ایسا اظہار فرمایا ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی ایسا کیا اور نہ ہی بعد میں کبھی ایسا کرے گا۔ تم کسی اور کے پاس جاﺅ۔ تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاﺅ۔ چنانچہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے ، اے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ! آپ علیہ السلام اللہ کے رسول اور اس کاایک کلمہ ہیں جو اس نے حضرت مریم علیہ السلام کی جانب القا فرمایا ہے نیز آپ علیہ السلام اس کی جانب کی روح ہیں اور آپ علیہ السلام نے پنگوڑے کے اندر لوگوں سے باتیں کی تھیں لہذا آپ علیہ السلام ہماری شفاعت فرمائیں ۔ کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کس حال کو پہنچ گئے ہیں؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ میرے رب نے آج غضب کا ایسا اظہار فرمایا ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی ایسا کیا اور نہ ہی بعد میں کبھی ایسا کرے گا۔ تم کسی اور کے پاس جاﺅ۔ ارے تم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور جاﺅ۔ چنانچہ لوگ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوگے، اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول اور انبیائے کرام میں سب سے آخری ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف فرما دیئے تھے لہذا اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمایئے، کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ ہم کس حال کو پہنچ گئے ہیں؟ پس میں ( یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کام کے لیے چل پڑوں گا اور عرشِ عظیم کے نیچے آکر اپنے رب عزوجل کے حضور سجدہ ریز ہو جاﺅں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پرایسی حمدیں اور حسنِ ثناءظاہر فرمائے گا جو مجھ سے پہلے کسی پر ظاہر نہیں فرمائی ہونگی، پھر مجھ سے فرمایا جائے گا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا سر اٹھاﺅ ، مانگو کہ تمھیں دیا جائے گا۔ شفاعت کرو کہ تمھاری شفاعت قبول فرمائی جائے گی۔ پس میں اپنا سر اٹھا کر عرض کرونگا، اے رب! میری امت، پس فرمایا جائے گا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کے ان لوگوں کو جن کا ہم نے حساب نہیں لینا ”باب الایمن“ سے جنت میں داخل کردو۔

اسی جلد کی ایک روایت جو کہ حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ آخری الفاظ اس طرح ہیں ۔ ”پھر میں (یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا سر اٹھاﺅں گا اور اللہ تعالیٰ کی ایسی حمدیں بیان کروں گا جنکی مجھے تعلیم فرمائی جائے گی۔ پھر شفاعت کروں گا، جسکی میرے لیے ایک حد مقرر فرما دی جائے گی۔ تو میں ایک گروہ کو جنت میں داخل کر کے واپس لوٹ آﺅ ں گا۔ پھر میںاپنے رب کو دیکھ کر حسبِ سابق کروں گا۔ حکم ہوگا شفاعت کرو اور میرے لیے ایک حد مقرر فرما دی جائے گی تو میں دوسرے گروہ کو جنت میں داخل کر کے واپس لوٹ آﺅں گا۔ پھر تیسری دفعہ اسی طرح واپس آﺅں گا، پھر چوتھی دفعہ اسی طرح واپس لوٹوں گا۔“

مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ بروزِ قیامت تمام بنی آدم کے سردار و سلطان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ دوسری اہم بات ، لوگ اس دنیا میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی نبی یا ولی سے مدد منگنی جائز نہیں بلکہ یہ شرک ہے، مذکورہ مستند فرمان بتارہے ہیں کہ جس روز قیامت برپا ہوگی اور خدا تعالیٰ خود سامنے موجود ہوں گے اس وقت بھی لوگ براہ راست اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرنے کی ہر گز جرات نہ کر سکیں گے بلکہ وسیلہ تلاش کریں گے بل آخر بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشکل کشائی ہوگی۔ اور حاجت روائی ہوگی۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احسان اور عطا کے بغیر کام نہیں بنے گا۔ یعنی ہم دونوں جہانوں میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سائل ہیں اور ان کی عطاﺅں کے محتاج ہیں۔

حسین و جمیل اور دلیر آقا صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم
بخاری شریف جلد 2حدیث نمبر 168
بخاری شریف جلد 2حدیث نمبر 121
بخاری شریف جلد 2حدیث نمبر 126
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم سب لوگوں سے حسین و جمیل اور دلیر تھے۔ ایک رات اہلِ مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا تو لوگ آواز کی جانب دوڑے تو آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم لوگو ں کو واپس آتے ہوئے ملے کہ صورتِ حال کی خبر بھی لے آئے، اس وقت نبی کریم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے اور تلوار آپ کی گردن مبارک میں لٹک رہی تھی، آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم لوگوں سے فرما رہے تھے کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے پھر ارشاد فرمایا، ہم نے اس گھوڑے کو دریا کی طرح تیز رفتا پایا ہے۔

تفصیل
اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ جن کے دل محبت ِ رسول صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم سے منور ہوتے ہیں ان کو حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے اوصاف بیان کرنے ہی میں لطف آتا ہے ۔اور ان کی نظر میں نہ ہی کوئی اور حسین و جمیل اور دلیر ہو سکتا ہے، ہو بھی کیسے ؟ جب اللہ تعالیٰ نے ان سے حسین و جمیل کسی کو پیدا ہی نہیں فرمایا۔ اسی حدیث کے آخر میں حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے کے متعلق فرمایا کہ ہم نے تو اسے دریا کی طرح تیز رفتار پایاہے۔ اس سے پہلے یہی گھوڑا نہایت سست رفتار مشہور تھا۔ مگر جب اس کے ساتھ حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کا جسم ِ اقدس مَس ہوا تو پھر یہی گھوڑا بہت تیزرفتار ہو گیا اور اس واقعے کے بعد کوئی گھوڑا اس سے سبقت نہیں لے سکا۔



حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے عذاب نہیں
بخاری شریف جلد 2حدیث نمبر 1759
بخاری شریف جلد 2حدیث نمبر 1760
حضرت انس ؓ نے ابو جہل کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے اللہ ! اگر یہ قرآن تیری طرف سے حق ہے ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا کوئی درد ناک عذاب ہم پر لے آ، اس پر وحی نازل ہوئی، © ” اور اللہ کا کام نہیں کہ ان پر عذاب کرے جب تک اے محبوبصلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم ! تم ان میں تشریف فرما ہو اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں ہے۔ “ (سورہءالانفال، آیت 32تا34)

رحمت غضب پر غالب
بخاری شریف جلد 2حدیث نمبر 427
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا فرما چکا تو لوحِ محفوظ میں جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے، لکھ لیا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب آگئی ہے۔

مزید حوالے
مسلم و بخاری بحوالہ مشکواة شریف جلد 2صفحہ 422


No comments:

Post a Comment

آمدو رفت