Mymenu

Pages

Muhammad (SAWW) ka ilm-e-ghaib

حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علمِ غیب

بخاری شریف جلد 1حدیث نمبر 92
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسے سوالات کیے گئے جو ناپسند تھے۔ جب زیادہ کیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوگئے پھر لوگوں سے فرمایا کہ جو چاہو مجھ سے پوچھ لو۔ ایک شخص عرض گزار ہوا کہ میرا باپ کون ہے؟ فرمایا کہ تمھارا باپ حذافہ ہے۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوکر عرض گزار ہوا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میر اباپ کون ہے؟ فرمایا کہ تمھارا باپ سالم ہے۔ جب حضرت عمر ؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کی حالت دیکھی تو عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کرتے ہیں۔

تفصیل
معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا علم عطا فرمایا ہے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگو ں سے فرمایا کہ جو چاہو پوچھ لو پھر جو سوالات کیے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے جوابات عطافرمائے۔ جب حضرت عمر فاروقؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور پر جلال کے آثار دیکھے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کی۔ فاروق اعظم ؓ نے یہ بھی مسئلہ حل فرما دیا کہ جب بر گزیدہ ہستیاں ناراض ہو جائیں تو عذر پیش نہیں کرنا چاہیے بلکہ معافی مانگنی چاہیے۔ یہ بھی واضح کردیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے اسی لیے تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خشوع و رکوع پوشیدہ نہیں
بخاری شریف جلد 1حدیث نمبر 404
بخاری شریف جلد 1حدیث نمبر 703
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تم کیا یہی دیکھتے ہو کہ میرا منہ ادھر ہے ؟ خدا کی قسم ، مجھ پر نہ تمھارا خشوع و خضوع پوشیدہ ہے اور نہ تمھارے رکوع، میں تمھیں پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔

تفصیل
اس حدیثِ پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانا کہ مجھ پر تمھارے خشوع و رکوع پوشیدہ نہیں ہیں۔ اس میں خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح فرما دیا کہ میری نگاہ سے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے کیونکہ رکوع تو طاہری اور جسمانی فعل کا نام ہے مگر خشوع تو قلبی کیفیت کا نام ہے جو خوف خدا سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ بھی واضح فرما دیا کہ میں تمھیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں اور تمھارے رکوع مجھ پر
ظاہر ہیں اور ساتھ یہ بھی فرمادیا کہ تمھاری قلبی کیفیت بھی مجھ پر عیاں ہے کیونکہ دیکھنا آنکھوں میں موجود اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نور کا کام ہے اور جن کا مکمل سراپا ہی اللہ تعالیٰ کا نور ہو بھلا ان سے کوئی چیز کیسے پوشیدہ ہو سکتی ہے یعنی نہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ سے ہمارے ظاہر پوشیدہ ہیں اور نہ ہی باطن۔ اسی طرح اگلی حدیث میں بھی فرمایا۔
بخاری شریف جلد 1حدیث نمبر 405
حضرت انس بن مالک ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی پھر منبر پر جلوہ افروز ہو کر نماز اور رکوع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تمھیں پیچھے سے بھی اس طرح دیکھتا ہوں جیسے سامنے سے تمھیں دیکھتا ہوں۔
یہ مضمون کچھ کمی بیشی کے ساتھ جلد نمبر 1حدیث نمبر 686, 703, 680اور 681میں بھی موجود ہے۔ حدیث نمبر 702صفحہ 357کے راوی حضرت ابو ہریرہ ؓ ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ پوشیدہ نہیں۔
بخاری شریف جلد 1حدیث نمبر 709
بخاری شریف جلد 1حدیث نمبر 990
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں سورج کو گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی، لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی جگہ پر کوئی چیز پکڑی تھی؟ پھر ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیچھے ہٹے۔ فرمایا کہ میں نے جنت دیکھی تو اس میںسے ایک خوشہ پکڑنے لگا تھا اور اگر میں اسے لے لیتا تو تم اس میں سے رہتی دنیا تک کھاتے رہتے۔

تفصیل
اس حدیث ِ پاک سے واضح ہے کہ نگاہِ حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ پوشیدہ نہیں لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معاذ اللہ دیوار کے پیچھے کا علم نہیں حالانکہ مذکورہ مستند حدیث بتا رہی ہے کہ بظاہر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نماز پڑھا رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ ساتو ں آسمانوں کو چیز کر جنت میں پہنچ گئی جبکہ ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو برس ہے اور اگلی بات کہ صرف جنت کا نظارہ ہی نہیں کیا بلکہ واضح فرما دیا کہ میں اگر خوشہ پکڑنا چاہتا تو پکڑ سکتا تھا۔ یعنی جہاں نگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظارہ کرتی ہے وہاں دستِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسائی بھی ہے پھر وہ اس مختصر سے دنیا میں کیسے نہیں دیکھ سکتے اور کیسے رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔

قبر پر سبز شاخ گاڑ دینا۔
بخاری شریف جلد 1حدیث نمبر 215
بخاری شریف جلد 1حدیث نمبر 1271
بخاری شریف جلد 3حدیث نمبر 989
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا کہ انھیں عذاب ہو رہا ہے اور کسی کبیرہ گناہ کے باعث نہیں ، ان میں سے ایک تو پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلیاں کھاتا پھرتا تھا۔ پھر ایک سبز ٹہنی لی اور اس کے دو حصے کر کے ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا کیوں کیا؟ فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں تو شایدان کے عذاب میں کمی ہوتی رہے۔

تفصیل
مذکورہ حدیثِ پاک بتا رہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبر اور عالمِ برزخ کے حالات مخفی نہیں ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح فرمادیا کہ ان قبروالوں کو کس عمل کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مزاروں پر سبز شاخ یا پھول ڈالنے درست ہیں اور صاحب ِ مزار کے لیے تسکین کا باعث ہیں۔
شہدائے اُحد پر جلوہ گری
بخاری شریف جلد 1حدیث نمبر 1257
بخاری شریف جلد 2حدیث نمبر 805
بخاری شریف جلد 2حدیث نمبر 1213
بخاری شریف جلد 2حدیث نمبر 1254
بخاری شریف جلد 3حدیث نمبر 1347
حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہدائے اُحد پر نماز پڑھنے کیلئے تشریف لے گئے جیسے میت پر نماز پڑھی جاتی ہے پھر منبر پر جلوہ افروز ہو کر فرمایا، بے شک میں تمھارا سہارا اور تم پر گواہ ہوں اور بے شک خدا کی قسم، میں اپنے حوض کو اب بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا فرما دی گئی ہیں یا زمین کی کنجیاں اور بے شک خدا کی قسم مجھے تمھارے متعلق ڈر نہیں ہے کہ میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم دنیا کی محبت میں نہ پھنس جاﺅ۔

تفصیل
واضح ہو ا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہدائے اُحد پر کمال شفقت فرماتے ہوئے تشریف لے جاتے ۔ خاص طور پر مذکورہ روایت آخری سال سے تعلق رکھتی ہے۔ اہل ذکر نے فرمایا ہے کہ اس حدیث کے لفظ صلوٰة کا دعا کے معنی میں ہونے پر اجماع ہے۔ یعنی صالحین اورشہدا کی قبور پر جانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ آگے فرمایا کہ میں اب بھی اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں۔ یعنی زمین پر بیٹھ کر فرمایا کہ میں اب بھی اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں ۔ جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر بیٹھ کر حوضِ کوثر کو دیکھ سکتے ہیں ان سے دنیا کی کوئی چیز کیسے پوشیدہ ہو سکتی ہے؟ اور یہ بات قسم اٹھا کر نمایاں کردی۔ یہ بھی فرمایا کہ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کر دی گئی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے عطا کرنے والا منصب مجھے عطا فرمایا ہے اب جس کو جو کچھ ملے کا میرے ہی در سے ملے گا۔ چاہے کوئی انکار کرکے کھائے یا اقرار کرکے۔
آخری بات پھر قسم اٹھا کر ارشاد فرمائی کہ مجھے تمھارے متعلق یہ ڈر نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے ہاں یہ خدشہ ہے کہ کہیں دنیا کی محبت میں نہ پھنس جاﺅ۔ خاص طور پر یہ ارشاد شہدا ءکی قبور پر فرمانا کیونکہ حوضِ کوثر کو دیکھنے والے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دورِ حاضر کے شرک کے ٹھیکیدار پوشیدہ نہیں تھے اسی لیے جو قبور سے متعلقہ شرک شرک کے فتوے لگاتے ہیں وہ جان لیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح فرمادیا ہے کہ میری امت شرک نہیں کرے گی۔ ہاں دنیا کی محبت میں پھنس جانے کاخدشہ ظاہر فرمایا۔ دراصلہ دنیا کی محبت میں اسیر ہونے ہی کی وجہ سے ہم برگزیدہ لوگوں کی محفل سے دور ہو جاتے ہیں جو دین سے دوری کا سبب بنتا ہے۔اس طرح ہم ہر نماز، روزہ، قرآن تلاوت کرنے والے اور لمبی داڑھی رکھنے والے کو دین کا ٹھیکیدار سمجھتے ہوئے اس سیدھے راستے سے دور ہوجاتے ہیں جس کی پہچان ہی انعام یافتہ بندوں کا گروہ ہے۔

No comments:

Post a Comment

آمدو رفت