Mymenu

Pages

Ikhtiyaraat-e-Mustafa

اختیاراتِ مصطفی صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم

حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم تقسیم فرمانے والے ہیں۔
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 71
حضرت ابن ابو سفیان ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سوجھ بوجھ عطا فرماتا ہے بے شک میں تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔

تفصیل
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ دین کی سوجھ بوجھ اسی کو عطا فرماتا ہے جس کی بھلائی منظور ہوتی ہے، فقہ سے چڑنا گویا خود کو بھلائی سے محروم رکھنا ہے اور آگے فرمایا کہ ہر چیز کا عطا فرمانے والا اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ وہی مالک ہے اور یہ نعمتیں بانٹنے والا اسی مالک کی ذات نے رحمتِ عالم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کو بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتیں دستِ مصطفی صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم سے تقسیم ہو رہی ہیں جب حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم پر نبوت ختم ہے تو آج بھی امت کو خیرات کی اسی طرح ضرورت ہے جیسے پہلے زمانوں میں تھی۔آج بھی ان کی نبوت کا تاج سلامت ہے اور بلا شبہ انھیں کی تقسیم سے راج کیے جا رہے ہیں۔

جو چاہو پوچھ لو
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 92
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا، نبی کریم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم سے ایسے سوالات کیے گئے جو ناپسند تھے۔ جب زیادہ کیے گئے تو آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم ناراض ہو گئے، پھر لوگوں سے فرمایا کہ جو چاہو مجھ سے پوچھ لو۔ ایک شخص عرض گزار ہوا کہ میرا باپ کون ہے؟ فرمایا کہ تمھارا باپ حذافہ ہے پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوکر عرض گزار ہوا، یا رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم میرا باپ کون ہے؟ فرمایا کہ تمھارا باپ سالم ہے۔ جب حضرت عمر ؓ نے آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے چہرئہ انور کی حالت دیکھی تو عرض گزار ہوئے، یا رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم ہم اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کرتے ہیں۔

تفصیل
معلوم ہوا کہ حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا علم عطا فرمایا ہے اسی لیے آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ جو چاہو مجھ سے پوچھ لو پھر سوالات کیے گئے آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے ان کے جوابات عطافرمائے۔ جب حضرت عمر فاروق ؓ نے آپ کے چہرئہ انور پر جلال کے آثار دیکھے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کی، فاروق اعظم ؓ نے یہ بھی مسئلہ حل فرمادیا کہ جب بر گزیدہ ہستیاں ناراض ہو جائیں تو عذر پیش نہیں کرنا چاہئے بلکہ معافی مانگنی چاہیے۔ یہ بھی واضح کر دیا کہ حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی۔

حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے سامنے جھولی پھیلانا۔
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 119
بخاری شریف جلد نمبر 2حدیث نمبر 849
حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا کہ میں عرض گزار ہوا کہ یا رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم میں آپ کے ارشادات سنتا ہوں مگر بھول جاتا ہوں۔ فرمایا کہ اپنی چادر بچھاﺅ، پس میں نے اسے بچھادیا۔۔۔۔ پس آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے دونوں ہاتھوں سے لپ ڈالی اور فرمایا لپیٹ لو ۔۔۔ میں نے اسے لپیٹ لیا تو کسی چیز کو نہ بھولا۔

تفصیل
معلوم ہوا کہ بارگاہ رسالت صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم میں اپنی مشکل پیش کرنا اور مدد چاہنا کوئی نئی بات یا شرک نہیں ہے کیونکہ رب تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے تقسیم کرنے پر ان کو مامور فرمایا ہے اور ایسا کرنا صحابہؓ کی سنت ہے جن کی پیروی کرنے والے کبھی گمراہ نہیں ہو سکتے۔ اسی لیے جب حضرت ابو ہریرہ ؓ نے سوال کیا تو حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ تم شرک کررہے ہو بلکہ فرمایا اپنی چادر میرے سامنے بچھا دو۔۔۔۔ پھر چادر میں ایسی لپ ڈالی جو بظاہر دکھائی نہیں دیتی تھی مگر آج بھی کثیر احادیث جو کہ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہیں حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی مشکل کشائی پر گواہی دے رہی ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابو ہریرہؓ کوئی چیز نہیں بھولے۔




انگلیوں سے چشمے جاری
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 119
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے پانی کا برتن منگایا تو خدمتِ عالی میں کھلے منہ کا پیالہ پیش کیاگیا جس میں ذرا سا پانی تھا، آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے اس میں انگلیاں ڈالیں۔۔۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں پانی کو دیکھ رہا تھا جو آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی انگلیوں سے پھوٹ کر بہہ رہا تھا، حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ میں نے وضو کرنے والوں کا اندازہ کیا تو وہ ستر (70) سے اسی (۸۰) تک تھے۔

تفصیل
واضح ہواکہ حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے اپنے جانثاروں کی اس انداز میں مشکل کشائی فرمائی جس کا نظارہ اس سے پہلے چشمِ فلک نے کبھی نہیں دیکھا تھا، پتھروں سے تو پانی کے چشمے جاری ہوتے رہے ہیں مگر یہ کام صرف اللہ کے حبیب صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم ہی کا ہے جنہوں نے اپنی انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کر دیئے اور اپنے عشاق کی حاجت روائی فرمادی۔

حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم سے کچھ پوشیدہ نہیں
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 709
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 990
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں سورج کا گرہن لگا تو آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی، لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے اپنی جگہ پر کوئی چیز پکڑی تھی؟ پھر ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم پیچھے ہٹے، فرمایا کہ میں نے جنت دیکھی تو اس میں سے ایک خوشہ پکڑنے لگا تھا اور اگر میں اسے لے لیتا تو تم اس میں سے رہتی دنیا تک کھاتے رہتے۔

تفصیل
اس حدیثِ پاک سے واضح ہے کہ نگاہِ حبیب صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم سے کچھ پوشیدہ نہیں لوگ کہتے ہیں کہ آپ کو معاذ اللہ دیوار کے پیچھے کا علم نہیں حالانکہ مذکورہ مستند حدیث بتارہی ہے کہ بظاہر حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم میں نماز پڑھا رہے ہیں اور آپ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی نگاہ ساتوں آسمانوں کو چیر کر جنت میں پہنچ گئی جبکہ ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو برس کے راستے کے برابر ہے بھلا ان کی نگاہ سے زمین کا کوئی راز کیسے چھپا رہ سکتا ہے اور اگلی بات کی صرف جنت کا نظارہ ہی نہیں کیا بلکہ واضح فرمادیا کہ میں اگر خوشہ پکڑنا چاہتا تو پکڑ لیتا، یعنی جہاں نگاہِ مصطفی صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نظارہ کرتی ہے وہاں دستِ مصطفی صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی رسائی بھی ہے پھر وہ اس مختصر سی دنیا میں کیسے نہیں دیکھ سکتے اور کیسے رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔

اختیاراتِ رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 840
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اگرمیں اپنی امت کیلئے مشقت نہ سمجھتا یا اگر میں لوگو ں پر مشقت نہ شمار کرتا تو میں انھیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا۔

تفصیل
اس سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کو بے شمار اختیارات عطا فرمائے یعنی اگر حضور صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم ایسا حکم دے دیتے تو وہی رب تعالیٰ کی رضا بن جاتا اور وہی شریعتِ مطہرہ کا قانون بن جاتا ، ایسا کہنا کہ رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کی مرضی سے کچھ نہیں ہوتا، یاد رہے کہ ایسا عقیدہ اللہ تعالیٰ کی سخاوت اور عطاﺅں کا انکار کرنے کے مترادف ہے اور یہ انکار ہی کفر کہلاتا ہے۔ جب کہ شیطان کے متعلق سب کا کہنا ہے کہ وہ ہربندے کا ساتھ بھی ہے اور گمراہ کرنا اس کے اختیار میں بھی ہے پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیطان نے یہ طاقت کہا ں سے لی ہے تو ایک ہی جواب سنائی دیتا ہے کہ دینے والا تو صرف اللہ ہے۔ پھر سوچنے والی بات یہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے شر پھیلانے کے اختیارات دیے ہیں اسکے ساتھ اللہ تعالیٰ کا تعلق کیسا ہے؟ تو معلوم ہوتا اس کے ساتھ نفرت کا تعلق ہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جس سے نفرت ہے اس کو تو طاقت عطا فرمادی تو کیا اپنے دوستوں کو خیر کی طاقت سے محروم رکھا، ذرا سوچیے یہ اعتراض کس پر اٹھتا ہے؟ اللہ تعالیٰ ایسے عقائد سے محفوظ رکھ۔ آمین۔ ایسے عقائد حقیقت کے بالکل متضاد ہیں اگر ابلیس کے پا س گمراہ کرنے کی طاقت ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کو سیدھے راہ پر لگانے کی طاقت عطا فرمائی ہے۔ اگر ابلیس کے پاس شر کی طاقت ہے تو اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ خیر کی طاقت ہے۔ اگرابلیس کے پاس شر پھیلانے کے اختیارات ہیں تو اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کے پاس خیر پھیلانے کے اختیارات ہیں۔ اگر ابلیس گمراہ کرسکتا ہے تو اللہ کے محبوب بندے سیدھے راستے پر چلا سکتے ہیں۔

بادلوں کی اطاعت
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 884
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 958
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 959
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 964
حضرت انس بن مالک ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وٓلہ وسلم کے زمانے میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہوگئے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وٓلہ وسلم جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے تو ایک اعرابی کھڑا ہوکر عرض گزار ہوا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وٓلہ وسلم مال ہلاک ہوگیا اور بچے بھوک سے مرگئے۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وٓلہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے، ہم نے آسمان میں بادل کا کوئی ٹکڑا نہیں دیکھا، قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، ہاتھ کیا اٹھائے پہاروں جیسے بادل آگئے، آپ صلی اللہ علیہ وٓلہ وسلم منبر سے اترے بھی نہیں تھے کہ میں نے بارش کے قطرے آپ صلی اللہ علیہ وٓلہ وسلم کی ریش مبارک سے ٹپکتے دیکھے۔

حکمِ مصفطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکمِ خدا ہے۔
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 1621
حضرت عبد اللہ ؓ بن عمروبن العاص سے روایت ہے کہ وہ موجود تھے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوم النحر کو خطبہ دے رہے تھے، ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا کہ میں نے فلاں کام سے پہلے فلاں کام کرلیا ہے؟ پھر دوسرا کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا کہ میں نے فلاں کام فلا ں کام سے پہلے کرلیا یعنی قربانی سے پہلے سر منڈا لیا یا رمی کرنے سے پہلے قربانی کرلی یا اسی طرح کے سولات، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب کے متعلق فرمایا کہ اب کرلو اور کوئی مضائقہ نہیں اس روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جس بات کے متعلق بھی پوچھا گیا تو یہی فرمایا کہ اب کرلو اور کوئی ڈر نہیں ہے۔

تفصیل
معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرضی ہی رب کی مرضی ہے جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے ہیں اللہ تعالی وہی قانون بنا دیتا ہے اور وہی طریقہ رب تعالیٰ کی خوشنودی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اور دوسری بات کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ دوسروں کیلیے آسانی کا راستہ پیدا فرمایا اور سختی کو پسند نہیں فرمایا۔

اختیاراتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 1665
حضرت ابو بکر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے یوم النحر کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ، کیا تم جانتے ہو کہ یہ کونسا دن ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ اللہ اور اس کارسول بہتر جانتے ہیں آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے اور ہم سمجھے کہ شاید اس کا کوئی اور نام لیں گے، فرمایا کیا یہ یوم النحر نہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کیوں نہیں، فرمایا کہ یہ کونسا مہینہ ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے تو ہم سمجھے کہ اس کا کوئی اور نام لیں گے۔ فرمایا کہ کیا یہ ذو الحجہ نہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے ضرور، فرمایا یہ کونسا شہر ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ اللہ بہتر جانے اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے تو ہم سمجھے کہ شاید اس کا کوئی اور نام لیں گے۔ فرمایا کہ کیا یہ حرمت والا شہر نہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ ضرور ہے۔

تفصیل
اس حدیث پا ک سے معلوم ہوا کہ صحابہ کبار ؓ بارگاہِ نبویصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کس قدر باادب ہیں اور ان کا عقیدہ واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجتارکُل ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم کے متعلق پوچھا تو جاننے کے باوجود عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاموشی سے اندازہ لگایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا نام تبدیل فرما دیں گے۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو چاہیں وہی کرسکتے ہیں اسی طرح مہینے اور شہر کے متعلق صحابہ کبار ؓ نے باادب عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاموشی سے وہی اندازہ لگایا کہ ضرور نیا نام ارشاد فرمائیں گے یعنی صحابہ ؓ عقیدہ واضح ہے کہ وہ ہر سوال کے جواب میں یہی عرض کرتے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں اور جو کچھ کرنا چاہیں وہی کر سکتے ہیں۔ ہر سوال کے جواب میں صحابہ ؓ کا کہنا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں یہی واضح کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر چیز کا علم اور اختیار دیا ہے۔


زمین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔
بخاری شریف جلد نمبر 2حدیث نمبر 404
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم مسجد میں تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد سے باہر تشریف لے گئے اور ہم سے فرمایا، یہود کی طرف چلو، پس ہم چل پڑے یہاں تک کہ بیتِ مدارس پہنچے، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں سے فرمایا، اسلام لے آﺅ، محفوظ ہو جاﺅ گے ورنہ اچھی طرح جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے اور بے شک میں تمھیں اس جگہ سے نکال دینا چاہتا ہوں۔ پس جس کے پاس مال ہے وہ اسے فروخت کر دے، ورنہ معلوم ہو جانا چاہیے کہ بے شک زمین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔

تفصیل
اس حدیث پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح طور پر یہودیوں سے فرمایا کہ اچھی طرح جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔ معلوم ہوا کہ جہاں جہاں خدا تعالیٰ کی خدائی کا سلسلہ ہے وہاں وہاں پر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مصطفائی سایہ فگن ہے۔ جب زمین اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے تو اس پر موجود ہر چیز پر بھی اللہ تعالیٰ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بادشاہی ہے۔

مختار ِ کُل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 1806
بخاری شریف جلد نمبر 1حدیث نمبر 1807
بخاری شریف جلد نمبر 3حدیث نمبر 336
بخاری شریف جلد نمبر 3حدیث نمبر 1096
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ © ” ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی حاضر بارگاہ ہو کر عرض گزار ہوا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہلاک ہوگیا، فرمایا کہ تمھیں کیا ہوا؟ عرض کی کہ میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے صحبت کر بیٹھا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمھیں آزاد کرنے کے لیے ایک گردن (یعنی غلام) میسر ہے؟ عرض کی نہیں، فرمایا کہ کیا تم دو مہینوں کے متواتر روزے رکھ سکتے ہو؟ عرض گزار ہوا کہ نہیں، فرمایا کہ کیا تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ عرض کی نہیں (یعنی اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا) پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے اور ہم وہیں تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک عرق پیش کیا گیا جس میں کھجورٰ تھیں، عرق ایک پیمانہ ہے۔ فرمایا کہ سائل کہا ں ہے؟ سائل عرض گزار ہو ا کہ میں حاضر ہوں۔ فرمایا کہ انھیں (یعنی کھجوریں) لے کر خیرات کردو (تمھارے روزے کا کفارہ ادا ہو جائے گا) وہ آدمی عرض گزار ہوا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا اپنے سے زیادہ غریب پر ؟ خدا کی قسم ! ان دونوں سنگلاخ میدانوں کے درمیان کوئی گھر والے ایسے نہیں جو میرے گھر والوں سے زیادہ غریب ہوں، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے پچھلے دانت مبارک نظر آنے لگے، پھر فرمایا کہ اپنے گھر والوں کو کھلا دو۔

تفصیل
اس حدیث سے واضح ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے شمار اختیارات عطا فرمائے ہوئے تھے ۔ اسی لیے جب سائل نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سوال کیا تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر تم غلام آزاد نہیں کر سکتے اورنہ ہی متواتر دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو اور نہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو اتواب اس مسئلہ کا میرے پاس کوئی حل نہیں۔ میرے اختیارات تو وہی تھے جو میں نے تمھیں بتا دیئے۔ نہیں میرے دوستو! میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ان گنت اختیارات عطا فرمائے ہیں اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوالی کو مایوس نہیں فرمایا، اور نہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ تم مجھ سے کیوں مانگنے آگئے ہو۔ جاﺅ اللہ تعالیٰ کے حضور سوال کرو وہی تمھاری ضرورت پوری فرمائے گا۔ سوالی بھی کوئی عام نہیں تھا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی ؓ تھا۔ جسے معلوم تھا کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا ہی اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ جب بھی اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ ہی عطا فرماتا ہے اسی لیے تو رب تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح اعلان فرما دیا ہے۔
ترجمہ:” اور اگر جب وہ اپنی جانو ں پر ظلم کریں تو اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے حضور حاضر ہوں پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرما دیں تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول فرمانے والا مہربان پائیں“ (پارہ 4، النسآ، آیت 64)

اس آیہءکریمہ میں اللہ تعالیٰ نے گناہ کی معافی مانگنے والوں کو درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضر ہونے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احسان فرمانے والے مختارِ کُل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ ایک بات یہ واضح ہوئی کہ گناہ تو کیا رب کا مگر جانا کہاں ہے؟ صرف بارگاہِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ، یعنی درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی درِ خدا ہے تیسرا اہم حکم یہ ہے اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمھاری توبہ قبول کرتے ہوئے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت کروائیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کیے بغیر رب تعالیٰ راضی نہیں ہوگا۔

No comments:

Post a Comment

آمدو رفت