Mymenu

Pages

Deen Say Kharij Hongai

دین سے خارج ہوں گے

بخاری شریف جلد 2حدیث نمبر 815
ترجمہ
حضرت ابو سعید ؓ خدری فرماتے ہیں کہ ہم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے اور آپ مال تقسیم فرما رہے تھے پس بنی تمیم کا ایک شخص ذوالخویصرہ نامی آیا اور کہنے لگا ، یا رسول اﷲ انصاف سے کام لو، آپصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تیری خرابی ہو، اگر میں انصاف نہ کروں تو ناکام و نامراد رہ جاﺅں گا، حضرت عمرؓ عرض گزار ہوئے، یا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اجازت مرحمت فرمایئے کہ میں اس (گستاخ) کی گردن اڑا دوں ، فرمایا ، جانے دو کیونکہ اس کے اور بھی ساتھی ہیں تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے بالمقابل حقیر جانو گو اور اپنے روزوں کی ان کے روزوں کے بالمقابل ، یہ قرآن بہت پڑھیں گے لیکن و ہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے، اگر ان کے پکڑنے کی جگہ کو دیکھا جائے تو کچھ نہیں ملے گا۔
اور مولا علی ؓ کی روایت میں آخری الفاظ اس طرح ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آخر زمانے میں ایک ایسی قوم آئے گی جو عمر کے لحاظ سے چھوٹے اور میزان پر کھوٹے ہوں گے وہ سرورِکائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثیں بیان کریں گے لیکن اسلا م سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیر، تم جہاں بھی انہیں پاﺅ قتل کر ڈالو کیونکہ قیامت کے روز ان کے قاتل کو ثواب ملے گا۔

تفصیل:
ان احادیث مبارکہ میں حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بار گاہ میں گستاخی کرنے والے شخص کا مکمل حلیہ تک موجود ہے، ایسے گستاخ لوگوں کی پہچان موجودا دور میں انتہائی مشکل ہوگئی ہے کیونکہ ہر شخص نماز، روزہ اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والے شخص کو صاحبِ ایمان سمجھنے لگتاہے حالا نکہ مذکورہ احادیث بتا رہی ہیں کہ جس شخص نے حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں گستاخی کی اس کے متعلق حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نمازیں کثرت سے پڑھیں گے اور روزے بہت زیادہ رکھیں گے اس طرح قرآنِ کریم کی تلاوت کثرت سے کریں گے مگر اس کے باوجود دین سے خارج ہو ں گے، اس لئے کہ ان کے دل محبتِ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے خالی ہوں گے بلکہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی اور بے ادبی ان کی خاص پہچان ہوگی، جیسا کہ حدیثِ نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک صاحبِ ایمان نہیں ہو سکتا، جب تک میں صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اسے اس کے والد اور اولا سے زیادہ پیارا نہ ہو جاﺅں،(بخاری شریف جلد ا حدیث نمبر 13 اور 14)۔ درحقیقت حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہی اصل ایمان ہے اور محبت بھی ایسی خالص مانگی گئی ہے جو ہر چیز سے بڑھ کر ہو، حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی بڑھ کر ہو، ایسی محبت ہی کو اہلِ ذکر عشقِ نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا نام دیتے ہیں اور عشق کا پہلا قرینہ ہی ادب ہے اور عشق والوں کے نزدیک معمولی بے ادبی بھی قابلِ معافی نہیں کیونکہ عشق والے بے ادبی نہیں کرتے، ان کے نزدیک تہ سگِ کوئے مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بھی قابلِ صد تعظیم ہیں، عشقِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہی مو من و منافق کی پہچان ہے۔

No comments:

Post a Comment

آمدو رفت